سوال :
مفتی صاحب ! جب امام رکوع سے اٹھتے وقت کی تکبیر کہتے ہیں تو مقتدی کو ربنا لک الحمد کہنا چاہیے یا ربنا ولک الحمد"و" کے اضافے کے ساتھ؟ رہنمائی فرما دیں۔
(المستفتی : نبیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : امام کے تسمیع (سمع اللہ لمن حمدہ) کہنے کے بعد مقتدی کے لیے مسنون ہے کہ وہ تحمید (ربنا لک الحمد) کے کلمات کہے، اور یہ الفاظ حدیث شریف میں کمی بیشی کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ فقہاء نے بھی ان تمام الفاظ کو ذکر کیا ہے۔ نیز امام اور منفرد دونوں کے لیے تحمید کے کلمات کا کہنا مسنون ہے۔
علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے بدائع الصنائع میں " رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ" کے کلمہ کو زیادہ مشہور لکھا ہے۔ جبکہ در مختار میں علامہ حصکفی رحمہ اللہ نے ’’اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ‘‘ کو افضل قرار دیا ہے، جس کی علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے تائید فرمائی ہے۔ اور ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ سب سے افضل ’’اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ‘‘ ہے، اس کے بعد ’’اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ‘‘ کا درجہ ہے، پھر ’’ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ‘‘ کا، اور اخیر میں ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘ کا درجہ ہے۔ لہٰذا جسے جو آسان ہو وہ اختیار کرسکتا ہے۔
اسی طرح حدیث شریف میں تیس سے زائد فرشتوں کا جن کلمات کو لے جانے میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے کا ذکر ہے وہ کلمات یہ ہیں : رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَکًا فِيهِ۔ (بخاری)
البتہ یہ کلمات انفرادی نماز میں پڑھنا بہتر ہے۔ کیونکہ جماعت کی نماز میں چونکہ ہر طرح کے لوگ یعنی ضعیف اور مریض بھی شریک ہوتے ہیں، اس لئے امام کے لئے اولیٰ اور بہتر یہی ہے کہ وہ قومہ اور جلسہ میں زائد ذکر ودعا نہ کرے، کیونکہ اس کی وجہ سے بعض مقتدیوں کو دقت اور گرانی ہوسکتی ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا جماعت کی نماز میں عام طور پر ہلکی پڑھانے کا معمول تھا، لیکن بعض مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طوالت اختیار کی ہے وہ بیانِ جواز کے لیے ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ فَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۷۹۶)
فیجمع بین التسمیع والتحمید لو کان إماماً ہٰذا قولہما وہو روایۃ عن الإمام اختارہا الحاوي القدسي وکان الفضلي والطحاوي وجماعۃ من المتأخرین یمیلون إلی الجمع۔ (المراقي مع الطحطاوي : ۱۵۴)
اخْتَلَفَتْ الْأَخْبَارُ فِي لَفْظِ التَّحْمِيدِ فِي بَعْضِهَا رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَفِي بَعْضِهَا رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ وَالْأَشْهَرُ هُوَ الْأَوَّلُ۔ (بدائع الصنائع : ۱/٢١٠)
وَ يَكْتَفِي (بِالتَّحْمِيدِ الْمُؤْتَمُّ) وَأَفْضَلُهُ: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَك الْحَمْدُ، ثُمَّ حَذْفُ الْوَاوِ، ثُمَّ حَذْفُ اللَّهُمَّ فَقَطْ وفی الشامیہ : ثُمَّ حَذَفَ أَيْ مَعَ إثْبَاتِ الْوَاوِ، وَبَقِيَ رَابِعَةٌ وَهِيَ حَذْفُهُمَا وَالْأَرْبَعَةُ فِي الْأَفْضَلِيَّةِ عَلَى هَذَا التَّرْتِيبِ كَمَا أَفَادَهُ بِالْعَطْفِ بِثُمَّ۔ (شامی : ١/٤٩٧)
عَلَى أَنَّهُ إنْ ثَبَتَ فِي الْمَكْتُوبَةِ فَلْيَكُنْ فِي حَالَةِ الِانْفِرَادِ، أَوْ الْجَمَاعَةِ وَالْمَأْمُومُونَ مَحْصُورُونَ لَا يَتَثَقَّلُونَ بِذَلِكَ كَمَا نَصَّ عَلَيْهِ الشَّافِعِيَّةُ، وَلَا ضَرَرَ فِي الْتِزَامِهِ وَإِنْ لَمْ يُصَرِّحْ بِهِ مَشَايِخُنَا فَإِنَّ الْقَوَاعِدَ الشَّرْعِيَّةَ لَا تَنْبُو عَنْهُ، كَيْفَ وَالصَّلَاةُ وَالتَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَالْقِرَاءَةُ كَمَا ثَبَتَ فِي السُّنَّةِ. اهـ۔(شامی : ١/٥٠٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 رجب المرجب 1442
Mohtaram Mufti Sahab agar Imam sahab Rabbana Lakal Hamd Aaram se padhte hain aur us dauran agar muqtadi رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَکًا فِيهِ
جواب دیںحذف کریںPadh sakta hai to kya use padhna chahiye ?
پڑھ لینا چاہیے۔
حذف کریںواللہ تعالٰی اعلم