سوال :
محترم جناب مفتی صاحب ! غیر مسلموں کے ساتھ ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھا سکتے ہیں؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی غیر مسلم کے ساتھ کھانا کھایا ہے؟ اگر کھایا ہے تو اس کی کیا صورت تھی؟
(المستفتی : افضال احمد ملی، مالیگاؤں)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آدمی خواہ مسلمان ہو یا کافر۔ اس کا جوٹھا پاک ہے۔ بشرطیکہ اس وقت اس نے کوئی ناپاک چیز نہ کھائی یا پی ہو، جیسے شراب یا خنزیر وغیرہ
مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
غیر مسلم کے ہاتھ سے تر اور سیال چیز لینا فی حد ذاتہ جائز ہے، لیکن اگر غیر مسلم کی بے احتیاطی کی وجہ سے مشروب کا نجاست کے ساتھ ملوث ہونے کا خیال ہو تو بچنا بہتر ہے اور اگر غالب گمان ہو تو لینا ناجائز ہے اور پاک ہونے کا یقین ہو تو بلاکراہت جائز ہے۔ یہی حکم جوٹھے کا بھی ہے۔ (کفایت المفتی : ٢/٣١٠)
معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا ہدایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے غیرمسلم کے ساتھ ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھانا جائز ہے بشرطیکہ کھانا حلال ہو، البتہ اس کی عادت نہیں بنانی چاہیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہودیوں کی دعوت قبول کرنا اور ان کے یہاں کھانا ثابت ہے، البتہ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر اور ایک پلیٹ میں کھانے کی صراحت ہمیں کسی روایت میں نہیں ملی۔
فسوٴر آدمي مطلقاً ولو کافراً …… طاهر الفم، … طاهر۔ (الدر المختار مع رد المختار، کتاب الطهارة، باب المیاه، ۱/ ۳۸۱،۳۸۲)
الأول من الأقسام : سؤر طاهر مطهر بالاتفاق من غیر کراهة في استعماله، وهوما شرب منه آدمي لیس بفمه نجاسة ... ولا فرق بین الصغیر والکبیر والمسلم والکافر والحائض والجنب.۔ (نورالإیضاح مع شرحه مراقي الفلاح : ۱۸)
قال محمد رحمه الله تعالى : ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل، ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز، ولايكون آكلاً ولا شارباً حراماً، وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني، فأما إذا علم فإنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل، ولو شرب أو أكل كان شارباً وآكلاً حراماً۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٤٧)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبَانُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ يَهُودِيًّا دَعَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خُبْزِ شَعِيرٍ وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ فَأَجَابَهُ۔ (مسند احمد)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 جمادی الآخر 1442
اگر شوہر نے اپنی بیوی کو غصے میں ایک مرتبہ کہا طلاق جب کہ وہا کوئی تیسرا نہ تھا جوکہ گوہی دیدیتا لیکن بیوی یا شوہر کسی ایک نے یہ بات بتائی تو کیا طلاق ہوگی جبکہ انکے درمیان گواہ کوئی بھی نہ تھا اور ایک طلاق ہوئی تو دونو کتنے دنو تک دور رہینگے
جواب دیںحذف کریںایک طلاق ہوگئی، اب اگر رجوع کرنا ہوتو شوہر دو گواہوں کی موجودگی میں کہہ دے کہ میں رجوع کرتا ہوں یا تنہائی میں میاں بیوی والا عمل کرلے تو دونوں کا نکاح بدستور قائم رہے گا، البتہ شوہر نے اس سے پہلے کوئی طلاق نہ دی ہوتو اب اسے صرف دو طلاق کا اختیار رہے گا، لہٰذا آئندہ بہت احتیاط سے رہے۔
حذف کریںواللہ تعالٰی اعلم