سوال :
محترم مفتی صاحب! ابھی بندہ کتاب المسائل میں جمعہ کی سنن ونوافل سے متعلق مسائل کا مطالعہ کررہا تھا، فرض کے بعد سنت اور نفل کے بارے میں صرف اتنا ہی مذکور ہے کہ نماز جمعہ کے بعد چار رکعت مؤکدہ اور دو رکعت غیر مؤکدہ۔ اور درمختار کے حوالے سے یہ مذکور ہے کہ أربعاً قبل الجمعة واربعا بعدها بتسليمة،
اسی طرح امام ابویوسف کے حوالے سے یہ بات لکھی ہیکہ
السنة بعدالجمعة ست ركعات،
اس میں دریافت طلب امر یہ ہیکہ، عام طور سے لوگ جمعہ کے بعد آٹھ رکعت پڑھتے ہیں، چار سنت موکدہ دو سنت غیر مؤکدہ پھر دو نفل، معمول بہ تو یہ ہے، جبکہ کتاب میں چھ رکعت کے بارے بتلایا گیا ہے، تو پھر جو نفل پڑھی جاتی ہے اس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے؟ سنن و نوافل جمعہ سے متعلق اگر مزید مدلل انداز میں رہنمائی فرمادیں تو نوازش ہوگی۔
(المستفتی : افضال احمد ملی، امام جامع مسجد پمپر کھیڑ، چالیسگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تحقیقی بات یہی ہے کہ جمعہ میں کُل بارہ رکعتوں کا ثبوت ملتا ہے، چار رکعت جمعہ کے خطبہ سے پہلے سنت مؤکدہ، پھر خطبہ کے بعد جمعہ کی دو فرض رکعت، پھر جمعہ کے بعد ۶؍رکعت، چار رکعت ایک سلام کے ساتھ اور دو رکعت ایک سلام کے ساتھ ۔ اور ان چھ رکعتوں کی ادائیگی میں اختلاف ہے، بعض دو رکعت کو مقدم کرتے ہیں اور چار رکعت کو مؤخر کرتے ہیں اور بعض چار رکعت پہلے پڑھتے ہیں اور دو رکعت بعد میں، البتہ بہتر یہ ہے کہ پہلے چار رکعت اس کے بعد دو رکعت پڑھی جائے، مگر ان چھ رکعتوں کے علاوہ مزید دو رکعت نوافل کا ثبوت کسی معتبر روایت سے نہیں ملتا، لہٰذا سوال نامہ میں مذکور کتاب المسائل میں بیان کردہ تفصیل بالکل درست ہے، اس کی تائید میں روایات اور فقہی جزئیات ملاحظہ فرمائیں ۔
عن ابن مسعودؓ، أنہ کان یصلي قبل الجمعۃ أربعاً وبعدہا أربعاً۔ (سنن الترمذي، کتاب الجمعۃ، باب ما جاء في الصلوۃ قبل الجمعۃ وبعدہا، النسخۃ الہندیۃ ۱/۱۱۸، دار السلام رقم:۵۲۳)
عن أبي عبیدۃ عن عبد اﷲؓ، قال: کان یصلي قبل الجمعۃ أربعاً-عن إبراہیم قال: کانوا یصلون قبلہا أربعًا۔ (مصنف لابن أبي شیبۃ ۴/۱۱۴-۱۱۵،رقم قدیم:۵۳۶۰-۵۳۶۳، رقم جدید ۵۴۰۲-۵۴۰۵)
عن أبي ہریرۃؓ، قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: من کان منکم مصلیًا بعد الجمعۃ فلیصل أربعاً۔ (ترمذي، کتاب الجمعۃ، باب ماجاء في الصلوۃ قبل الجمعۃ وبعدہا، النسخۃ الہندیۃ ۱/۱۱۷، دار السلام رقم:۵۲۳)
عن أبي عبد الرحمنؓ، قال:قدم علینا ابن مسعود، فکان یأمرنا أن نصلي بعد الجمعۃ أربعًا، فلما قدم علینا عليؓ: أمرنا أن نصلي ستاً، فأخذنا بقول عليؓ وترکنا قول عبد اﷲؓ، قال: کان یصلي رکعتین، ثم أربعاً۔(المصنف لابن أبي شیبۃ ۴؍۱۱۷، رقم جدید ۵۴۱۰، رقم قدیم: ۵۳۶۸)
ومنہا أربع بعدہا ؛ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي بعد الجمعۃأربع رکعات یسلم في آخرہن۔ (مراقي الفلاح) وفي الطحطاوي: ثم عند أبي یوسف یصلي أربعاً ثم اثنتین، کذا في الحدادي۔ (طحطاوي علی مراقي الفلاح / فصل في بیان النوافل ۲۱۳ قدیمي کتب خانہ کراچی، ۳۸۹ المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)
قال أبو یوسفؒ: یصلي أربعاً قبل الجمعۃ وستاً بعدہا، وفي الکرخي محمد مع أبي یوسفؒ۔ وفي المنظومۃ: مع الإمام، ثم عند أبي یوسفؒ یصلي أربعًا ثم اثنین۔ (طحطاوي : ۳۱۳، کراچی)
وأربع قبل الجمعۃ وأربع بعدہا بتسلیمۃ۔ (درمختار : ۲؍۴۵۱، زکریا)
والأفضل أن یصلي أربعاً ثم رکعتین للخروج عن الخلاف۔ (غنیۃ المستملي : ۳۷۳، مجمع الأنہر : ۱؍۱۳۰، بیروت)
وسن مؤکدا․․․ أربع قبل الجمعة و أربع بعدها۔ (الدرالمختار مع الشامی : 2/451، ط زکریا دیوبند)
و یستن بعدھا أربعا أو ستا علی الخلاف أي أربعا عندہ وستا عندھما (الدرالمختار مع الشامی : 2/436، ط زکریا دیوبند)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 ذی الحجہ 1439
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں