سوال :
محترم مفتی صاحب ! درج ذیل سوالات کے مفصل مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
1) عقیقہ کا شریعت میں کیا حکم ہے؟ اگر عقیقہ نہ کیا جائے تو گناہ ملے گا؟ جس کا عقیقہ نہ ہوا ہو اس کی قربانی بھی نہیں ہوتی کیا یہ بات صحیح ہے؟
2) عقیقہ کب کیا جائے؟
3) لڑکے کی طرف سے کتنے جانور اور لڑکی کی طرف سے کتنے جانور ذبح کرنا ہوگا؟ ان جانوروں کی شرائط کیا ہیں؟
4) اس کے گوشت کا کیا جائے؟ کیا اسے شادی کی دعوت میں استعمال کرسکتے ہیں؟ اس کی کھال اور بچی ہوئی ہڈیوں کو فروخت کرسکتے ہیں؟
5) عقیقہ کی کوئی دعا بھی ہے؟ اگر ہوتو وہ بھی ارسال فرمائیں۔
(المستفتی : نعیم الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عقیقہ کرنا مسنون و مستحب ہے، لہٰذا استطاعت ہوتو عقیقہ کرلینا چاہیے، کیونکہ اس کی برکت سے نومولود کی حفاظت اور مشکلات ومصائب سے بچنے کا اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے انتظام ہوتا ہے۔ تاہم اگر نہ کیا جائے تب بھی کوئی گناہ نہیں۔ نیز یہ سمجھنا بھی بڑی غلطی ہے کہ جس کا عقیقہ نہیں ہوا اس کی قربانی بھی نہیں ہوسکتی۔ عقیقہ کا قربانی ہونے نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں انہیں اپنی اصلاح کرلینا چاہیے۔
2) مستحب یہ ہے کہ عقیقہ ساتویں دن کیا جائے۔ اگر ساتویں دن نہ کرسکیں تو چودھویں یا اکیسویں دن کرلیا جائے، اور اسکے بعد بھی کرسکتے ہیں، کوئی حرج نہیں۔ ساتویں دن عقیقہ کرنے کے بعد بچے کے سر کا بال منڈواکر بال کے وزن کے برابر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کردینا اور اس کا نام رکھ دینا بھی مستحب ہے۔
3) وسعت ہو تو لڑکے کی طرف سے دو بکرے اور اگر استطاعت نہ ہوتو لڑکے کی طرف سے ایک بکرا بھی دینا بھی کافی ہے، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا ذبح کیا جائے گا، اگر بڑا جانور یعنی گائے، بیل یا بھینس ہوتو اس میں سات حصے ہوتے ہیں، لہٰذا اسی ترتیب سے اس میں بھی حصہ رکھا جاسکتا ہے۔ یعنی اگر استطاعت نہ ہو تو ایک بڑے جانور میں سات لڑکوں کا عقیقہ کیا جاسکتا ہے، یا اگر بڑا جانور ہو اور عقیقہ ایک دو لوگوں کا ہی کرنا ہوتو پورا جانور عقیقہ میں ذبح ہوگا۔ ایسی صورت میں یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ اب بقیہ حصوں کا کیا ہوگا؟ یعنی پورا جانور عقیقہ میں شمار ہوگا۔
عقیقہ کے جانور میں بھی وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور میں ہیں، لہٰذا ان کی عمریں ذیل کے مطابق ہوں۔
1) بھیڑ / دنبہ : اگر فربہ اور صحت مند ہو تو ایک سال سے کم بھی ان کا عقیقہ درست ہے، جب کہ چھ مہینہ سے زائد کے ہوں۔
2) بکرا / بکری : ایک سال کا مکمل ہوچکا ہو۔
3) گائے/بھینس : دو سال کے مکمل ہوچکے ہوں۔
4) اونٹ : پانچ سال کا مکمل ہوچکا ہو۔
4) مستحب یہ ہے کہ عقیقہ کے جانور کا گوشت ایک تہائی غریبوں میں، ایک تہائی رشتہ داروں اور دوست واحباب میں تقسیم کردیا جائے اور ایک تہائی اپنے کھانے کے لیے رکھ لیا جائے، تاہم اس میں کمی بیشی کرنے میں بھی شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔ نیز عقیقہ کا گوشت نکاح کی دعوت میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، خواہ دعوت لڑکے کی طرف سے ہو یا لڑکی کی طرف سے، بشرطیکہ اسے فروخت نہ کیا گیا ہو۔ عقیقہ کے جانور کی کھال اور ہڈیوں کو قربانی کے جانور کی طرح صدقہ کرنا ضروری ہے، اگر کھال قصاب کی اجرت میں دے دی جائے یا ہڈیوں کو فروخت کردیا جائے تو اتنی قیمت صدقہ کرنا واجب ہوگا۔
5) عقیقہ کی دعا حدیث شریف میں تو نہیں ہے، البتہ اس وقت درج ذیل الفاظ کے ساتھ دعا کرلینا بہتر ہے۔
أللهم ہٰذِہ عَقِیْقَةُ فلان... (یہاں پر جس کے نام سے عقیقہ ہے اس کا نام لیا جائے) دَمُہَا بِدَمِہ وَعَظْمُہَا بِعَظْمِہ وَجِلْدُہَا بِجِلْدِہ وَشَعْرُہَا بِشَعْرِہِ اللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا فِدَاءً لَہٗ اللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ۔
یاد رہے اس دعا کا پڑھنا بہتر ہے، ضروری نہیں ہے۔ اس کے بغير بھی عقیقہ ہوجائے گا۔ البتہ جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔
1-2) عن سمرۃ بن جندب رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الغلام مرتہن بعقیقتہ، یذبح عنہ یوم السابع، ویسمي، ویحلق رأسہ۔ (سنن النسائي، کتاب العقیقۃ / باب متی یعقّ ۱؍۱۸۸)
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: عَقَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الحَسَنِ بِشَاةٍ، وَقَالَ: «يَا فَاطِمَةُ، احْلِقِي رَأْسَهُ، وَتَصَدَّقِي بِزِنَةِ شَعْرِهِ فِضَّةً»، قَالَ: فَوَزَنَتْهُ فَكَانَ وَزْنُهُ دِرْهَمًا أَوْ بَعْضَ دِرْهَمٍ۔ (سنن الترمذی : رقم : ١٥١٩)
عن بریدۃ رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : العقیقۃلسبع، أو أربع عشرۃ، أو إحدی وعشرین۔ (إعلاء السنن، کتاب الذبائح / باب أفضلیۃ ذبح الشاۃ في العقیقۃ، ۱۷؍۱۱۸، إدارۃ القرآن کراچی)
ویستحب حلق رأس المولود یوم سابعہ۔ (إعلاء السنن، کتاب الذبائح / باب أفضلیۃ ذبح الشاۃ في العقیقۃ ۱۷؍۱۱۹)
3) عن سباع بن ثابت أن محمد بن ثابت بن سباع أخبرہ أن أم کرز أخبرتہ أنہا سألت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن العقیقۃ، فقال: عن الغلام شاتان، وعن الجاریۃ واحدۃ۔ (سنن الترمذي : ۱؍۲۷۸)
ولو ذبح بدنۃً أو بقرۃً من سبعۃ أولادٍ، أو اشترک فیہا جماعۃ جاز، سواء أرادوا کلہم العقیقۃ أو أراد بعضہم العقیقۃ وبعضہم اللحم۔ قلت: مذہبنا في الأضحیۃ بطلانہا بإرادۃ بعضہم اللحم، فلیکن کذٰلک في العقیقۃ۔ (إعلاء السنن، کتاب الذبائح / باب أفضلیۃ ذبح الشاۃ في العقیقۃ ۱۷؍۱۱۹ إدارۃ القرآن کراچی)
وصح الجذع ذو ستۃ أشہر من الضأن إن کان بحیث لو خلط بالثنایا لا یمکن التمیز من بعد۔ (درمختار : ۹؍۴۶۵)
والثنی من الغنم الذی تم لہ سنۃ وطعن فی الثانیۃ، ومن البقر الذی تم لہ سنتان وطعن فی الثالثۃ، ومن الابل الذی تم لہ خمس سنین وطعن فی السادسۃ۔ (درمختار مع الشامی : ۹؍۴۶۶)
4) وندب أن لا ینقص التصدق عن الثلث (الدر المختار) ضیافۃ لأقربائہ وأصدقائہ ویدخر الثلث، ویستحب أن یأکل منہا۔ (الدر المختار مع الشامي / کتاب الأضحیۃ، ۹؍۴۷۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 جمادی الآخر 1442
بہت بہت شکریہ ، جزاک اللہ خیرا مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریں