سوال :
اگر کسی شخص کو کوئی پریشانی آگئی ہے اور وہ دل ہی دل میں یہ مان لے یا نیت کرلے کہ اللہ تو میری پریشانی ختم کردے میں 5 روزے رکھوں گا۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے دوسرے ہی دن اس کی پریشانی ختم ہو جاتی ہے تو اگر وہ روزہ نہیں رکھنا چاہے تو؟ اگر اس کے یہ مانے ہوئے روزہ کو کوئی دوسرا شخص رکھنا چاہتے ہیں تو؟ کیا اس طرح سے روزہ، یا نماز ماننا درست ہے؟
(المستفتی : شمیم سر، دھولیہ)
---------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جس چیز کی منت مانی جارہی ہے ضروری ہے کہ وہ چیز عبادتِ مقصودہ کے قبیل سے فرض و واجب کے جنس یعنی نماز، روزہ، صدقہ وغیرہ میں سے ہو، تب کام کے پورا ہوجانے پر ایسی منت کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے، منت پورا نہ کرنے کی صورت میں ایسا شخص گنہگار ہوتا ہے۔ ایسی نذر اور منت کا ماننا جائز ہے، اور اس میں مانی گئی عبادت کا خود ادا کرنا ضروری ہے، دوسروں کے ادا کرنے سے منت ادا نہیں ہوگی۔
نیز منت اور نذر کے انعقاد کے لئے زبان سے تلفظ ادا کرنا لازم ہے۔ لہٰذا مسئولہ صورت میں اس شخص نے صرف نیت کی ہے کہ فلاں پریشانی ختم ہونے کے بعد پانچ روزہ رکھوں گا، اور زبان سے اُس کا تلفظ نہیں کیا ہے، تو اِس سے کوئی چیز اُس پر لازم نہیں ہوگی۔
وَمَنْ نَذَرَ نَذْرًا مُطْلَقًا أَوْ مُعَلَّقًا بِشَرْطٍ وَكَانَ مِنْ جِنْسِهِ وَاجِبٌ) أَيْ فَرْضٌ كَمَا سَيُصَرِّحُ بِهِ تَبَعًا لِلْبَحْرِ وَالدُّرَرِ (وَهُوَ عِبَادَةٌ مَقْصُودَةٌ) خَرَجَ الْوُضُوءُ وَتَكْفِينُ الْمَيِّتِ (وَوُجِدَ الشَّرْطُ) الْمُعَلَّقُ بِهِ (لَزِمَ النَّاذِرَ) لِحَدِيثِ «مَنْ نَذَرَ وَسَمَّى فَعَلَيْهِ الْوَفَاءُ بِمَا سَمَّى» (كَصَوْمٍ وَصَلَاةٍ وَصَدَقَةٍ) وَوَقْفٍ (وَاعْتِكَافٍ) وَإِعْتَاقِ رَقَبَةٍ وَحَجٍّ وَلَوْ مَاشِيًا فَإِنَّهَا عِبَادَاتٌ مَقْصُودَةٌ، وَمِنْ جِنْسِهَا وَاجِبٌ لِوُجُوبِ الْعِتْقِ فِي الْكَفَّارَةِ وَالْمَشْيِ لِلْحَجِّ عَلَى الْقَادِرِ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ۔ (شامی : ٣/٧٣٥)
(وَلَمْ يَلْزَمْ) النَّاذِرَ (مَا لَيْسَ مِنْ جِنْسِهِ فَرْضٌ كَعِيَادَةِ مَرِيضٍ وَتَشْيِيعِ جِنَازَةٍ وَدُخُولِ مَسْجِدٍ)۔ (شامی : ٣/٧٣٦)
قَالَ فِي شَرْحِ الْمُلْتَقَى : وَالنَّذْرُ عَمَلُ اللِّسَانِ۔ (شامي : ٢/٤٣٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 جمادی الاول 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں