سوال :
مفتی صاحب ! ٹوٹے ہوئے برتنوں میں کھانے اور پینے کا کیا حکم ہے؟ کیا احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے؟ کیا ٹوٹے برتن گھر میں ہونے سے غریبی اور مفلسی آتی ہے؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد جاسم، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پانی پینے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اس حدیث شریف کی روشنی میں ٹوٹے ہوئے برتنوں کے استعمال کی مختلف صورتیں بنتی ہیں جنہیں مع حکم ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے۔
1) اگر برتن پیالہ یا گلاس ہے، اس کا کنارہ ٹوٹا ہوا ہے تو ٹوٹی جگہ سے منہ لگا کر استعمال کرنا منع ہے، نبی کریم ﷺ نے پیالہ کی ٹوٹی جگہ سے پانی پینے کو منع کیا ہے، نبی کریم ﷺ نے امت پر شفقت اور مہربانی فرماتے ہوئے یہ حکم دیا ہے، کیوں کہ اس جگہ سے منہ لگا کر استعمال کرنے سے ہونٹ زخمی ہوسکتے ہیں، پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس ٹوٹی جگہ پانی بہہ کر چہرے اور کپڑوں پر گرجائے، نیز ٹوٹی جگہ پر گندگی جمع ہوجاتی ہے اور مکمل صفائی حاصل کرنا ممکن نہیں رہتا، ان وجوہات کی بنا پر نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو ٹوٹے برتن سے منہ لگا کر پانی پینے سے منع کیا ہے۔
2) پیالہ یا گلاس کا جو حصہ ٹوٹا نہیں، اس جگہ سے اسے استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔
3) اگر برتن ایسا ہے جسے منہ لگائے بغیر استعمال کیا جاسکتا ہے تو اس کے استعمال میں کراہت نہیں۔
4) اگر ٹوٹے ہوئے برتن کے علاوہ کوئی دوسرا برتن نہ ہو تو اسے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
5) اگر ٹوٹا ہوا برتن اصلاح و مرمت کے بعد قابل استعمال ہو تو اصلاح کے بعد استعمال کی گنجائش ہے۔
واضح رہے کہ حدیث شریف میں مذکور ممانعت کا مطلب ناجائز ہونا نہیں ہے، بلکہ ناپسندیدہ ہونا ہے، جس کی وجوہات بیان ہوچکی ہیں، لہٰذا اگر مجبوری کی وجہ سے ٹوٹا ہوا برتن استعمال کیا جائے تو اس میں حرج نہیں ہے۔ نیز ٹوٹے ہوئے برتن کو گھر میں رکھنے کو بے برکتی یا مفلسی کا باعث سمجھنا بھی درست نہیں ہے۔
(وعنه) : أي عن أبي سعيد -رضي الله تعالى عنه - (قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشرب من ثلمة القدح): بضم المثلثة وسكون اللام هي موضع الكسر منه. قال الخطابي: إنما نهى عن الشرب من ثلمة القدح؛ لأنها لاتتماسك عليها شفة الشارب، فإنه إذا شرب منها ينصب الماء ويسيل على وجهه وثوبه. زاد ابن الملك: أو لأن موضعها لايناله التنظيف التام عند غسل الإناء، (وأن ينفخ) : بصيغة المجهول أي وعن النفخ (في الشراب. رواه أبو داود). وكذا أحمد والحاكم"۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح :7 / 2753)
مستفاد : دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن، فتوی نمبر: 144012201404)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 جمادی الاول 1442
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
جواب دیںحذف کریںحضرت ایک مسٸلہ پوچھنا تھا۔ شادیوں میں دولہا دولہن کو ھلدی لگانا جاٸز ہیں یا نہیں اگر گھر والے اصرار کرے تو لگا سکتے ہیں کیا ??? کوٸی گناہ تو نہیں ھوگا۔
9270121798 اس واٹس اپ نمبر پر رابطہ فرمائیں
حذف کریںBahot umdah
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںمفتی صاحب !
جواب دیںحذف کریںگالی کا کیا گناہ ہے ؟ گالی کی کیا وعیدیں ہیں؟
گالی کبیرہ گناہ ہے۔
حذف کریں