سوال :
محترم مفتی صاحب! سوشل میڈیا پر اقوال علی کے نام سے بہت سی پوسٹ چلتی رہتی ہے، براہ کرم ان سے متعلق رہنمائی فرمائیں کہ کیا ان کا شیئر کرنا جائز ہے؟
(المستفتی : محمد مزمل، مالیگاؤں)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب جتنے بھی اقوال سوشل میڈیا پر گردش کرتے رہتے ہیں ان میں اکثر من گھڑت ہوتے ہیں اور ان کی تحقیق بھی آسان نہیں ہے، لہٰذا ان اقوال کا پھیلانا درست نہیں ہے۔
صاحبِ جرح وتعدیل حافظ ابو یعلی خلیلیؒ اپنی کتاب الارشاد میں لکھتے ہیں :
روافض نے اہلِ بیت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں تقریبا تین لاکھ روایتیں گھڑی ہیں۔
علامہ ابنِ قیم اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں اس لیے کہ اگر آپ روافض کی کتابیں دیکھیں تو آپ بھی مذکورہ بات کی تصدیق کریں گے۔
آج کل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام سے فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ پر حضرت علیؓ کی طرف منسوب جو عجیب وغریب اقوال شیئر کیے جاتے ہیں یا تو وہ انہی روافض کی کتابوں سے منقول ہوتے ہیں یا سرے سے ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہوتی، اس لیے اس طرح کے اقوال جن کو حضرت علی کی طرف منسوب کیا گیا ہو بغیر تحقیق کے آگے نہیں پھیلانا چاہیے۔ البتہ ایسی باتیں جو شریعت وسنت سے متصادم نہ ہوں، جنہیں اقوال زرین بھی کہا جاتا ہے، انہیں کسی کی طرف منسوب کیے بغیر بیان کرنے اور پھیلانے میں حرج نہیں۔
یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ۔ (سورۃ الحجرات : ۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 محرم الحرام 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں