سوال :
ٹیچروں نے کچھ عرصہ پہلے مطالبات کیلئے ہڑتال کی تھی، حکومت نے ان کی اتنے دن کی تنخواہ کاٹ لی تھی پھر سپریم کورٹ میں کیس کے بعد فیصلہ ہوا کہ اساتذہ کی تنخواہ مقررہ مدت میں ادا کی جائے اگر مدت میں ادا نہ کی گئی تو حکومت کو کچھ مقدار جرمانہ کے ساتھ تنخواہ ادا کرنی پڑے گی. حکومت نے مدت میں تنخواہ ادا نہیں کی ہے. سوال یہ ہے کہ جو جرمانہ کی رقم زائد ملے گی اس کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : نبیل احمد، مالیگاؤں)
-----------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی بھی ضابطہ کی خلاف ورزی کی صورت میں کسی سے مالی جرمانہ وصول کرنا جمہور علماء امت بشمول طرفین (امام ابو حنیفۃ اور امام محمد رحمهما اللہ) کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ اگر کسی نے وصول کرلیا تو اس کا واپس کرنا ضروری ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ٹیچروں کے لیے حکومت پر کورٹ کے لگائے گئے جرمانہ کا وصول کر اس کا ذاتی استعمال جائز نہیں ہے، بلکہ اس رقم کو خود پر لاگو ہوئے انکم ٹیکس جیسے ظالمانہ ٹیکسیس میں ادا کردیا جائے یا بلانیت ثواب فقراء اور مساکین میں تقسیم کردیا جائے۔
عن أنس بن مالک أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ۔ (سنن الدارقطني، کتاب البیوع، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/۲۲، رقم: ۲۷۶۲)
التعزیر بالمال جائز عند أبی یوسف، وعندہما وعند الأئمۃ الثلاثۃ لایجوز، وترکہ الجمہور للقرآن والسنۃ : وأما القرآن فقولہ تعالی :{فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم} ۔ وأما السنۃ فإنہ علیہ السلام قضی بالضمان بالمثل ولأنہ خبر یدفعہ الأصول فقد أجمع العلماء علی أن من استہلک شیئاً لم یغرم إلا مثلہ أو قیمتہ ۔ (اعلاالسنن ، ۱۱/۷۳۳، باب التعزیر بالمال ، بیروت)
ولا یکون التعزیر بأخذ المال من الجاني في المذہب۔ (مجمع الأنہر ، کتاب الحدود / باب التعزیر ۱؍۶۰۹ بیروت)
والحاصل أن المذہب عدم التعزیر بأخذ المال۔ (شامي / باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶ زکریا)
لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي / باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶ زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ربیع الآخر 1442
Payment لیٹ ھونے کی صورت میں جو فرق کی رقم ملتی ھے اس کا کیا حکم ہے
جواب دیںحذف کریںیہ سود ہے، لہٰذا اسی کے مصرف میں خرچ کی جائے گی۔
حذف کریںواللہ تعالٰی اعلم