سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کہ خلع کا کیا حکم ہے؟ اور اس کا شرعی طریقہ مع دلائل بتائیں۔
(المستفتی : حافظ شہباز، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : خلع کے لغوی معنی علیحدہ اور جدا کرنے کے آتے ہیں۔
ہو لغۃً : الإزالۃ ، واستعمل في إزالۃ الزوجیۃ بالضم ، وفي غیرہا بالفتح۔ (الدر المختار / باب الخلع ۵ ؍ ۸۳ زکریا)
حنفیہ کے نزدیک خلع کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ : شوہر کا کچھ مال لے کر لفظِ خلع (یا اُس کے ہم معنی الفاظ) کے ذریعہ ملکیتِ نکاح کو زائل کرنا یعنی طلاق دینا۔
وشرعًا : إزالۃ ملک النکاح المتوقفۃ قبولہا بلفظِ الخلع أو ما في معناہ کالمباراۃ ۔ (تنویر الأبصار / باب الخلع ۵ ؍ ۸۳)
خلع کا مطلب ہے کہ جس طرح بوقتِ ضرورت مرد کا طلاق دینا جائز ہے، اسی طرح اگر عورت نباہ نہ کرسکتی ہو، (مثلاً شوہر کی طرف سے حقوقِ زوجیت کی عدم ادائیگی اور شدید ترین جسمانی اذیت دینے کی صورت میں خلع کی اجازت ہوسکتی ہے) تو اس کو اجازت ہے کہ شوہر نے جو مہر وغیرہ دیا ہے اس کو واپس کرکے یا عدت کا نان و نفقہ معاف کرکے اس سے آزادی حاصل کرلے۔ خلع میں چونکہ شوہر کی اجازت ضروری ہے، اس لئے اگر شوہر آمادہ نہ ہو تو معاملہ شرعی عدالت اور دارالقضاء لے جایا جائے گا۔
ملحوظ رہے کہ خلع کے ذریعے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے، طلاق بائن یہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے نکاح سے فوراً نکل جاتی ہے، اب وہ عدت گزار کر کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے، اور چاہے تو عدت میں ہی یا عدت گزر جانے کے بعد بھی نئے مہر کے ساتھ اسی شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔
اگر نشوز (نافرمانی) شوہر کی طرف سے ہے تو شوہر کے لیے مہر کی رقم یا دوسرا کوئی بھی مال بیوی سے طلاق کے بدلے لینا جائز نہیں، لیکن اگر نشوز (نافرمانی) بیوی کی طرف سے ہے تو پھر بقدر مہر رقم لے سکتا ہے اس سے زیادہ نہ لیا جائے تو بہتر ہے، البتہ اگر زیادہ لے لیا تو لینا اس کے لیے جائز ہے، لیکن خلاف اولیٰ ہے۔
وفي الہدایۃ : وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا یقیما حدود اللّٰہ تعالیٰ، فلا بأس بأن تفتدي نفسہا منہ بمال یخلعہا، وفي الزاد : وإذا فعل ذٰلک وقع بالخلع تطلیقۃً بائنۃً ولزمہا المال ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ، کتاب الطلاق / الباب الثامن في الخلع وما في حکمہٖ ۱ ؍ ۴۸۸ قدیم زکریا )
لمافی الدرالمختار(۴۴۵/۳): ( وكره ) تحريما ( أخذ شيء ) ويلحق به الإبراء عما لها عليه ( إن نشز وإن نشزت لا ) ولو منه نشوز أيضا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح وصحح الشمني كراهة الزيادة وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق۔
وفی الرد تحتہ:قوله ( إن نشز ) في المصباح نشزت المرأة من زوجها نشوزا من باب قعد وضرب عصته ونشز الرجل من امرأته نشوزا بالوجهين الخ۔فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 صفر المظفر 1440
اَلْسَّـــــــلَاٰمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُاللّهِ وَبَرَكـَـاتُهُ!
جواب دیںحذف کریںکیا مذکورہ بالا صورت میں حلالہ شرعی نہیں کرنا ہوگا؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
حذف کریںجی نہیں ۔
یہ ایک طلاق ہوتی ہے، لہٰذا دوبارہ نکاح کے لئے حلالہ شرعی کی ضرورت نہیں ۔
واللہ تعالٰی اعلم
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںاور اگر دارالقضاءجانے کے بعد
جواب دیںحذف کریںشوہر یہ کہے کہ میں اپنی بیوی سے علحدگی نہیں چاہتا اور بیوی شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے بالکل بھی رضامند نہیں ہے
تب کیا حکم ہوگا
حالات کو سمجھ کر قاضی نکاح فسخ کردے گا۔
حذف کریںواللہ تعالٰی اعلم
جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیر مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریں