اتوار، 27 دسمبر، 2020

بیوی سے چار مہینہ یا اس سے زیادہ دور رہنے کی قسم کھانا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کہتا ہے کہ اللہ کی قسم میں تیرے پاس چار مہینے تک نہیں آؤں گا تو کیا اس سے طلاق واقع ہو جائیگی؟
2) بہت سارے لوگ باہر ملک میں ملازمت کررہے ہیں اور پانچ سال تین سال وہاں رہتے ہیں تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ان کا نکاح باقی رہے گا یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جو پہلی صورت بیان کی گئی ہے اسے شریعت کی اصطلاح میں ایلاء کہا جاتا ہے، اس کا مکمل مفصل حکم ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے تاکہ یہ مسئلہ مکمل طور پر سمجھ میں آجائے۔

ایلاء کے لغوی معنی قسم کھانے کے ہیں، اور شریعت میں اس کی تعریف یہ ہے کہ شوہر الله تعالی کا نام یا الله تعالی کی صفات میں سے کسی صفت کا ذکر کرکے قسم کھائے کہ وہ اپنی بیوی سے چار مہینے یا اس سے زیادہ عرصے تک جماع نہیں کرے گا۔

ایلاء کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر نے چار مہینے میں اپنی بیوی سے رجوع نہیں کیا، نہ بالفعل (یعنی جماع کرکے) اور نہ بالقول (یعنی صرف زبان سے کہدے کہ میں نے رجوع کیا) اس صورت میں اگر مرد عورت سے جماع نہ کرسکتا ہو خود بیمار ہونے کی وجہ سے یا بیوی کے بیمار ہونے کی وجہ سے یا دونوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو کہ وہ اس عرصے میں پہنچ نہ سکتا ہو تو بیوی کو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ اور اگر شوہر نے اس عرصہ میں رجوع کرلیا بالفعل یا بالقول تو وہ حانث (قسم کو پورا نہ کرنے والا) ہوگا۔ لہٰذا اس کے ذمے قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلائے یا ان کو پہننے کے لئے ایک ایک جوڑا دے، یا ایک غلام آزاد کرے اور اگر دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلانے یا ایک ایک جوڑا دینے اور غلام آزاد کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو تو مسلسل تین دن روزے رکھے۔ اگر الگ الگ کرکے تین روزے رکھے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزہ رکھنا ہوگا۔

قسم کے کفارہ میں دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا یا دس مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلانا ہے، البتہ گھر میں کھانے کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں دس مسکینوں کو دو وقت کے کھانے کی قیمت ادا کرنے کی شرعاً اجازت ہے، اسی کے ساتھ اس کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ مالی کفارہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوئے روزہ رکھ کر کفارہ ادا کرنا جائز نہیں ہے۔ کفارہ ادا کرنے کی آسان شکل یہ ہے کہ الگ الگ دس مسکینوں کو دونوں وقتوں کے کھانے کا پیسہ دے دیا جائے۔

ایلاء زمانہ جاہلیت میں ظہار کی طرح طلاق شمار ہوتا تھا لیکن عرب کے لوگ ایلاء اپنی بیوی کو ضرر پہنچانے کی نیت سے کرتے تھے وہ اس طرح سے کہ ان میں سے کوئی مرد اپنی بیوی سے ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے تک جماع نہ کرنے کی قسم کھا لیتا تھا اور جب اس مدت کے ختم ہونے کا وقت آتا تو پھر وہ اپنی قسم کو دھراتا اور اس طرح ساری زندگی گزر جاتی نہ تو وہ اپنی بیو ی کو بیوی رکھنے کیلئے تیار ہوتا تھا اور نہ اس کو طلاق دیتا تاکہ کوئی دوسرا اس سے نکاح کرے تو شریعت نے ایلاء کے ذریعے سے طلاق ہونے کو تو برقرار رکھا، لیکن اس میں وقت مقرر کردیا کہ اگر کوئی چار مہینے یا اس سے زیادہ عرصہ تک اپنی بیوی سے جماع نہ کرنے کی قسم کھالے پھر اگر اس عرصے میں رجوع نہ کرے تو اس کی بیوی کو ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی، اس طرح شریعت نے اس غلط رسم ورواج کو ختم کردیا جس میں عورت پر ظلم کیا جاتا تھا۔

صورت مسئولہ میں اگر یہ شخص چار مہینے سے پہلے اپنی بیوی سے جماع کرلے تو اس پر قسم توڑنے کا کفارہ لازم ہوگا، (قسم کے کفارہ کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے) اور اگر چار ماہ تک صحبت نہ کرے گا یا زبان سے نہیں کہے گا کہ میں رجوع کرتا ہوں تو چار ماہ بعد بیوی پر ایک طلاق بائن پڑ جائے گی، اس کے بعد اگر دونوں ساتھ رہنے پر رضا مند ہوں تو دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا ہوگا۔

معلوم ہونا چاہیے کہ احناف کے نزدیک ایلاء کرنا مکروہ تحریمی اور سخت گناہ کی بات ہے، کیونکہ اس میں بیوی کو تکلیف دینا اور ایک واجب عمل یعنی بیوی کا حق ادا نہ کرنے کی قسم کھانا پایا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی نے ایسی قسم کھا لی ہے تو اسے یہ قسم توڑ دینا چاہیے اور قسم کا کفارہ ادا کرنا چاہیے۔

2) اگر کسی نے مذکورہ بالا طریقہ پر کوئی قسم نہیں کھائی ہے یعنی ایلاء نہیں کیا ہے تو پھر میاں بیوی کا ایک دوسرے سے دور رہنا خواہ کتنے ہی عرصہ کے لیے ہو اس کی وجہ سے کوئی طلاق نہیں ہوگی۔

قَالَ اللہ تعالٰی : لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوْا فَإِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (۲۲۶) وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ(۲۲۷)۔ (سورۃ البقرة : ۲۲۶)

لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ…قال ابن عباس رضی الله عنھما: كان إيلاء أهل الجاهلية السّنة والسّنتين وأكثر من ذلك ، فوقّت الله أربعة أشهر ، فمن كان إيلاؤه أقل من أربعة أشهر فليس بإيلاء. وقال سعيد بن المسيب : كان الإيلاء ضرار أهل الجاهلية ، كان الرجل لا يريد المرأة ولا يحبّ أن يتزوجها غيره ، فيحلف أن لا يقربها أبدا ، وكان يتركها كذلك ، لا أيّما ولا ذات بعل ، فجعل الله تعالى الأجل الذي يعلم به ما عند الرجل في المرأة أربعة أشهر ، وأنزل الله تعالى : لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسائِهِمْ الآية۔ (التفسیر المنیر، سورۃ البقرۃ، ۳۱۲/۲)

الإيلاء منع النفس عن قربان المنكوحة منعا مؤكدا باليمين بالله أو غيره من طلاق أو عتاق أو صوم أو حج أو نحو ذلك مطلقا أو مؤقتا بأربعة أشهر في الحرائر وشهر ین في الإماء من غير أن يتخللها وقت يمكنه قربانها فيه من غير حنث كذا في فتاوى قاضي خان فإن قربها في المدة حنث وتجب الكفارة في الحلف بالله سواء كان الحلف بذاته أو بصفة من صفاته يحلف بها عرفا وفي غيره الجزاء ويسقط الإيلاء بعد القربان وإن لم يقربها في المدة بانت بواحدة كذا في البرجندي شرح النقاية ۔ (الفتاویٰ الھندیۃ : ۴۷۶/۱/نجم الفتاویٰ)

قال اللہ تعالیٰ : فَکَفَّارَتُہُ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ۔ (سورہ مائدہ، آیت : ۸۹)

وإن شاء أطعم عشرۃ مساکین کالإطعام فی کفارۃ الظہار۔ (ہدایۃ، الأیمان، باب ما یکون یمینا و مالایکون یمینا، ۲/۴۸۱)

ولو غدی مسکینا و أعطاہ قیمۃ العشاء أجزأہ و کذا إذا فعلہ فی عشرۃ مساکین۔ (شامی، کتا ب الأیمان، مطلب : کفارۃ الیمین، ۵/۵۰۳)

وإن عجز عنہا کلہا وقت الأداء صام ثلاثۃ أیام ولاء۔ (در مختار مع الشامی : ۵/۵۰۵)

أو إطعام عشرۃ مساکین، قال فی الشامیۃ: وفی الإطعام إما التملیک أو الإباحۃ فیعشیہم ویغدیہم (إلی قولہ) وإذا غدی مسکینا وعشی غیرہ عشرۃ أیام لم یجزہ لأنہ فرق طعام العشرۃ علی عشرین کما إذا فرق حصۃ المسکین علی مسکینین (وقولہ تحقیقا أو تقدیراً) حتی لو أعطی مسکینا واحدا فی عشرۃ أیام کل یوم نصف صاع یجوز۔ (شامی : ۵/۵۰۳)

ویجوز دفع القیمۃ … ولو غداہم و عشاہم فی یوم واحد أو عشاہم فی یوم آخر أو غداہم فی یومین أو غداہم و أعطاہم قیمۃ عشائہم الخ۔ (تاتارخانیۃ ۶/۳۰۲-۳۰۳، رقم: ۹۴۳۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 جمادی الاول 1442

3 تبصرے:

بوگس ووٹ دینے کا حکم