سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ غیر عالم وعظ ونصیحت اور بیان کرنا کیسا ہے؟ ایک امام صاحب صرف حافظ ہیں، جمعہ کے دن دس پندرہ منٹ کسی موضوع پر اکابر علماء کرام کی تحریروں کی روشنی میں کچھ اصلاحی بات کرتے ہیں تو کیا ان کا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : حافظ عبداللہ، مالیگاؤں)
----------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : وعظ ونصیحت بیان وتقریر کرنا جہاں ایک عظیم کار ثواب ہے، وہیں اگر اسے صحیح طور پر انجام نہ دیا جائے تو یہ خود کرنے والے کے لیے وبال بن سکتا ہے۔ مثلاً موضوع (من گھڑت) روایات اور تفاسیر کا بیان کرنا، ایسا انداز اختیار کرنا کہ سامعین بجائے عبرت حاصل کرنے نفرت اور بے زاری کا اظہار کریں، نیز شہرت، ریاکاری اور فخر کی وجہ سے بیان کرنا۔ لہٰذا بغیر تیاری اور ضرورت کے وعظ وبیان سے بچنا چاہیے۔ اس تمہید کے بعد اب آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں۔
غیر عالم کا وعظ وتقریر کرنا مطلقاً ناجائز نہیں ہے۔ کیونکہ اردو مطبوعہ فتاوی میں عموماً جہاں بھی کسی غیر عالم کے وعظ وتقریر کرنے کو ناجائز کہا گیا ہے وہیں جواز کی کچھ شکلیں بھی بیان کی گئی ہیں۔
صاحب فتاوی رحیمیہ مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
غیر عالم کا وعظ کہنا ممنوع ہے، لیکن تبلیغ جس کا دائرہ کار چھ نمبروں کے اندر محدود ہے اور ان چھ نمبروں سے متعلق جو کتاب تبلیغی اکابرین نے مرتب فرمائی ہے اسی کے اندر رہ کر دعوت دی جائے اور اس سے تجاوز کرکے اپنی طرف سے اضافہ اور استنباط نہ کیا جائے تو یہ کام واقف مسلمان کر سکتا ہے اس کے لیے عالم ہونا ضروری نہیں ہے۔ (فتاوی رحیمیہ : ٣/١٦٠)
ارشاد المفتین میں ہے :
صورت مذکورہ میں مذکورہ شخص اگر وعظ ونصیحت بیان کرتا ہے اور ایسے مسائل بیان کرتا ہے جس کا اس کو علم ہے مثلاً نماز اور روزہ کی فرضیت تو ایسے شخص کو ان مسائل کی تبلیغ کرنا اور وعظ ونصیحت کرناجائز ہے، اور اگر وعظ ونصیحت میں اختلافی واجتہادی مسائل بیان کرتا ہے یا ایسے مسائل بیان کرتا ہے جس کا اس کو علم نہیں ہے تو ایسے شخص کے لیے تبلیغ کرنا جائز نہیں ہے، اور ایسے شخص کا علماء وفقہاء کے سامنے وعظ ونصیحت کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ یہ سوء ادب ہے۔ (١/٣٥٢)
فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
غیر عالم کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ کتاب پڑھ کر سنادے مستقل تقریر نہ کرے، کیونکہ عامۃً حدود کی رعایت نہیں کر پاتا۔ اگر حدود کی رعایت کرے اور جو بات کہے مستند کہے تو اس کو اجازت ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ : ۴؍۳۳۳)
درج بالا فتاوی سے معلوم ہوا کہ غیر عالم تبلیغی جماعت کے اصولوں کے مطابق چھ صفات کے دائرہ میں رہ کر بیان کرے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ جمعہ کا خطاب جس میں عموماً ایک بڑی تعداد جمع ہوتی ہے، جس میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، اس موقع پر حالاتِ حاضرہ اور امت کے سلگتے مسائل پر گفتگو کرنا مفید ثابت ہوتا ہے، جس پر صحیح رہنمائی مستند اور جید عالم ہی بہتر طور پر کرسکتا ہے۔ لہٰذا حتی الامکان اس بات کی کوشش کی جائے کہ جمعہ کا خطاب کوئی مستند اور جید عالم کرے، تاکہ اختلاف و انتشار سے حفاظت رہے، لیکن اگر کوئی مستند عالم نہ مل سکے تو امامِ مسجد جو صرف حافظ ہو وہ موضوع سے متعلق کوئی تحریر پڑھ کر سنادے یا مکمل تیاری کے ساتھ بیان بھی کرسکتا ہے، کیونکہ فی زمانہ معتبر تنظیموں کی جانب سے حالات حاضرہ پر تیار شدہ مواد انٹرنیٹ پر شائع کیے جاتے ہیں جن تک رسائی بہت آسان ہے، جس کی وجہ سے مقرر کے لیے غلطی کا امکان بالکل نہ کے برابر ہوتا ہے۔
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: بلغوا عني ولو آیۃ۔ (صحیح البخاري، کاب الأنبیاء / باب ما ذکر عن بني إسرائیل ۱؍۴۹۱ رقم: ۳۴۶۱)
الأمر بالمعروف یحتاج إلی خمسۃ أشیاء: أولہا العلم؛ لأن الجاہل لایحسن الأمر بالمعروف۔ (الفتاویٰ : ۵؍۳۵۳)
التذکیر علی المنابر للوعظ والا تعاظ سنۃ الأنبیاء والمرسلین۔ (درمختار : ۹؍۶۰۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ربیع الآخر 1442
ماشاء اللہ..
جواب دیںحذف کریںبہت ہی عمدہ...
ماشااللہ
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بہتر طریقے سے آپ نے رہنمائی فرمائی۔
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بہت خوب
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ۔ ذہن میں جو خلجان تھا تھاالحمد لله اب دور ہوگیا۔ جزاك الله خيرا
حذف کریں