سوال :
مفتی صاحب ! سردیوں کا موسم چل رہا ہے، مسجدوں میں بعض ایسے نمازی دیکھنے کو ملتے ہیں جو شال یا بڑے رومال سر یا کاندھے پر ڈالے ہوئے نماز ادا کرتے ہیں۔ (ہماری مسجد میں ایک شخص ہر سال سردیوں میں تولیہ کاندھے پر ڈالے، تولیہ کا دونوں کنارہ دائیں بائیں جانب لٹکتا ہوا چھوڑ کر نماز ادا کرتا تھا، سمجھانے پر پہلے الجھا، پھر مان گیا۔ اب تولیہ صف میں رکھ کر نماز ادا کرتا ہے۔) سوال آپ سے یہ ہے کہ سدل کا معنیٰ، حکم اور مصداق وغیرہ کیا ہے؟ وضاحت فرما دیں گے تو ایک سند بھی مل جائے گی، بہتوں کو فائدہ بھی ہوگا۔بینوا توجروا۔
(المستفتی : توصیف اشتیاق، مسجد بھاؤ میاں، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں بحالت نماز سدل کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔
سدل یہ ہے کہ کپڑا اپنے سر پر اور کندھے پر ڈال دے اور اسکے تمام کنارے کو نیچے لٹکتا چھوڑ دے۔ لیکن اگر چادر کو یا رومال کو ایک پیچ دے دیا جائے تو اب سدل نہیں رہے گا، اسکے مکروہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ یہود کا طریقہ ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس طرح کپڑا لٹکا رہے تو نماز میں بار بار اسکو سمیٹنا پڑتا ہے جس سے خشوع خضوع میں فرق پڑے گا، اور ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ بار بار کپڑے کو سمیٹنا مکروہ ہے، اس لئے بھی سدل مکروہ ہے۔
کتاب المسائل میں ہے :
عرب اپنے جبے کے اندر سے رومال پہنتے ہیں، اور ہمارے یہاں رومال اوڑھنے والے ایک طرف رومال کو کندھے پر ڈال دیتے ہیں، لہٰذا یہ مکروہ نہیں ہے۔ نماز کی حالت میں چادر یا رومال سر یا دونوں کندھوں پر رکھ کر اس کے دونوں سرے ایک دوسری جانب لپیٹے بغیر دونوں جانب چھوڑ دینا مکروہ تحریمی ہے، اس کو ’’سدل ‘‘ کہا جاتا ہے، یہی حکم اس صورت میں بھی ہے، جب کہ کوٹ یا شیروانی کو آستینوں میں ہاتھ دیئے بغیر کندھے پر ڈال لیا جائے (خارجِ نماز یہ کیفیت مکروہ تنزیہی ہے)
معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں آپ نے جس شخص کے عمل کا ذکر کیا ہے وہ سدل کی ہی صورت ہے، لہٰذا آپ کا منع کرنا درست ہوا۔
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم نَھٰی عَنِ السَّدْلِ فِی الصَّلَاۃِ وَاَنْ یُغَطِّیَ الرَّجُلُ فَاہُ۔ (ابوداؤد، باب ما جاء فی السدل فی الصلوة، ص ١٠١ نمبر ٦٤٣)
وکرہ الخ۔ سدل تحریماً للنہی ثوبہ أی إرسالہ بلا لبس معتاد، وکذا القباء بکم إلی وراء ذکرہ الحلبی کشد ومندیل یرسلہ من کتفیہ فلو من أحدہما لم یکرہ کحالۃ عذر وخارج صلوۃ في الأصح۔ (درمختار) قال الشامی: أی إذا لم یکن للتکبّر فالأصحّ أنہ لایکرہ، قال فی النہر أی تحریماً وإلاَّ فمقتضی ما مر أنہ یکرہ تنزیہاً۔ (شامی بیروت ۲؍۳۴۹، زکریا ۲؍۴۰۵، شرح وقایۃ ۱؍۱۶۷، بدائع الصنائع ۱؍۵۱۳، ہدایۃ ۱؍۱۴۱، کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 جمادی الاول 1442
جزاک اللہ خیرا مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریں🌹🌹🌹💐💐💐
مفتي صاحب
جواب دیںحذف کریںسعودی عرب دور دوسرے خلیجی ممالک میں ائمہ کرام رومال جس کو شماغ یا غطرہ کہتے ہیں اس کو سر پر ڈال کر لٹکتا چھوڑ دیتے ہیں اور بار بار اس کو سمیٹتے رہتے ہیں خاص طور سے ائمہ حرم
may allah give progress in april
جواب دیںحذف کریں