سوال :
محترم جناب مفتی صاحب! جان بوجھ کر اگر کوئی اپنی بیٹی کا مہر دولہے کی بساط سے زیادہ اس لئے طے کرے تاکہ وہ طلاق نہ دے، کیا ایسا کرنا درست ہے؟ نیز اس صورت میں مہر کتنا واجب ہوگا؟
(المستفتی : مولوی افضال احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ لی جائے کہ مہر باہمی رضامندی سے طے ہوتی ہے، مہر کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ لڑکی والے جتنا کہہ دیں اور وہ مہر متعین ہوجائے، بلکہ یہ لڑکے کی رضامندی پر موقوف ہے، اگر لڑکی والوں کی طرف سے بہت زیادہ مہر مقرر کرنے کا مطالبہ آئے تو لڑکے کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ صاف کہہ دے کہ مجھے یہ مقدار منظور نہیں ہے، بلکہ فلاں فلاں مقدار مقرر کی جائے کہ میں اسی کی استطاعت رکھتا ہوں، اس کے بعد باہمی رضامندی سے جس مقدار پر اتفاق ہوجائے اسی مقدار کا ذکر ایجاب وقبول کے وقت کیا جائے، البتہ اگر اپنی رضامندی سے لڑکا مہر زیادہ کردے تو کوئی حرج نہیں۔
نیز مہر کے سلسلے میں شرعی ضابطہ بھی یہی ہے کہ مہر بہت زیادہ مقرر نہ کیا جائے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے کہ مہر زیادہ مقرر نہ کی جائے کہ یہ کوئی فضیلت کی بات نہیں ہے۔ چنانچہ مہر مقرر کرتے وقت لڑکے کی حیثیت کو بھی ملحوظ رکھا جائے لڑکے کی استطاعت سے زیادہ مہر مقرر کرنا شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے، اور مہر تو بہرصورت لڑکے کو ادا کرنا ہی ہے خواہ وہ اس لڑکی کو زندگی بھر اپنے نکاح میں رکھے یا طلاق دے دے، شوہر کے طلاق دینے کے ڈر سے زیادہ مہر متعین کرنا کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہے۔
البتہ ایجاب وقبول کے وقت نکاح خواں نے مہر کی جس مقدار کا ذکر کیا اور دولہے نے اسے قبول کرلیا تو اب اس پوری رقم کا ادا کرنا شوہر پر واجب ہوگا۔
عن العجفاء السلمي قال : خطبنا عمر رضي اللّٰہ فقال: ألا لا تغالوا بصُدُق النساء؟ فإنہا لو کانت مکرمۃ في الدنیا أو تقویٰ عند اللّٰہ، کان أولاکم بہا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما أصدق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم امرأۃ من نسائہ ولا أُصدقت امرأۃ من بناتہ أکثر من ثنتي عشر أوقیۃ۔ (سنن أبي داؤد، رقم: ۲۱۰۶)
عن الشعبي عن علي رضي اللّٰہ عنہ: لا مہر أقل من عشرۃ دراہم۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي : ۷؍۲۴۰)
ولو سمی أقل من عشرۃ دراہم فلہا العشرۃ عندنا۔ (الہدایۃ : ۲؍۳۲۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 جمادی الاول 1442
مہر زیادہ طے کرنے میں ایک خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ زندگی بھر مہر ادا کرنے کی نیت ہی نہیں ہوتی جس کی بنا پر کوشش بھی نہیں ہوتی اور ساری زندگی مہر کی ادائیگی کے بغیر گذر جاتی ہے ۔
جواب دیںحذف کریںمیر کی شرعی مقدار کی بھی وضاحت ہوجاۓ
جواب دیںحذف کریں