سوال :
محترم مفتی صاحب ! آج کل پولٹری فارم والے مرغیوں کے پنجروں کے نیچے ایک چھوٹا تالاب نما بنا کر اس میں مچھلیوں کی ایک قسم magur ڈالتے ہیں، جو صرف مرغیوں کی گندگی کھاتی ہیں جو بہت تیزی سے بڑی ہوتی ہیں اور کم داموں میں بازار میں فروخت ہوتی ہیں کیا ان مچھلیوں کا کھانا جائز ہوگا؟
(المستفتی : شمس العارفین، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : خشکی کے جانور اور پانی کے جانور مچھلی کے درمیان کچھ فرق ہے، اگر خشکی کے جانور کی غذا ناپاک اور نجس ہو، تو اسے جلالہ کہا جاتا ہے، اس کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ مرغ ہو، تو اسے تین دن تک پاک غذا کھلائی جائے، اس کے بعد اس کو ذبح کرکے کھانا بلا کراہت حلال ہے، اور گائے، بیل، بھینس، اونٹ کے بارے میں حکم یہ ہے کہ دس دن تک پاک غذا کھلانے کے بعد ذبح کیا جائے، تو اس کا کھانا بلا کراہت درست ہے۔ اور خشکی کے وہ جانور جن کی غذا ناپاک رہی ہو، ان کو اس طرح غذا کی تبدیلی سے پہلے ذبح کر کے کھانا مکروہ ہے، اس کے بر خلاف پانی کے جانور یعنی مچھلی کا حکم اس سے بالکل الگ تھلگ ہے کہ مچھلی اگر ناپاک پانی میں ناپاک غذا کے ساتھ پرورش پائے، تب بھی وہ بغیر تبدیلئ غذا کے جائز اور حلال ہے۔
صورتِ مسئولہ میں قصداً ان مچھلیوں کو مرغیوں کی گندگی کھلانا مکروہ ہے۔ لہٰذا فارم مالکان کو اس سے بچنا چاہیے، تاہم اس کی وجہ سے مچھلی کا کھانا ناجائز اور حرام نہیں ہوگا۔ مچھلی بدستور حلال ہی رہے گی۔ ہاں اگر طبعی کراہت کی وجہ سے نہ کھائے تو الگ بات ہے، لیکن اسے ناجائز اور حرام نہ سمجھے اور نہ ہی کسی کو منع کرے۔ نیز اگر طبی نقطہ نظر سے ایسی مچھلیوں کا کھانا نقصان دہ ثابت ہوجائے تو پھر ایسی صورت میں ظاہر ہے اس کے کھانے سے اجتناب کیا جائے گا۔
الجلالۃ : بوزن حمالۃ الدابۃ التي یکون طعامہا العذرۃ ونحوہا من الجلۃ والبعرۃ۔ (لغۃ الفقہاء ص:۶۵، الموسوعۃ الفقہیۃ : ۱۵/۲۶۰)
وفي التجنیس : إذا کان علفہا نجاسۃ تحبس الدجاجۃ ثلاثۃ أیام، والشاۃ أربعۃ، والإبل، والبقرۃ عشرۃ، وہو المختار علی الظاہر۔ (شامي، کتاب الذبائح، زکریا ۹/۴۴۴، کراچي ۶/۳۰۶)
ولا یحل حیوان مائي إلا السمک الذي مات بآفۃ ولو متولداً فيمائٍ نجس۔ وتحتہ في الشامیۃ:فلا بأس بأکلہا للحال لحلہ بالنص، وکونہ یتغذي بالنجاسۃ لا یمنع حلہ-إلی قولہ-وینظر الفرق بین السمکۃ وبین الجلالۃ بأن تحمل السمکۃ علی ما إذا لم تنتن ویراد بالجلالۃ المنتنۃ۔ (شامي، کتاب الذبائح، زکریا۹/۴۴۴،کراچي۶/۳۰۶)
سئل علي بن أحمدؒ ویوسف بن محمدؒ عن السمکۃ إذا أخذت وأرسلت في الماء النجس فکبرت فیہ، فقال: لا بأس بأکلہا للحال۔ (التاتارخانیۃ، زکریا ۱۸/۴۹۲، رقم: ۲۹۷۱۰، وکذا في البزازیۃ، جدید زکریا۳/۱۶۴، وعلی ہامش الہندیۃ، زکریا ۶/۳۰۱/بحوالہ : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ربیع الاول 1442
جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںالاسلام علیکم۔ مفتی صاحب۔ مردار مرغی کسی غیر کو دینا جائز ہے
حذف کریںAssalamu a alaikum kya panch minat ka madara nami kitab diniyat Mumbai se shaey huyi hai us kitab ke mazameen khas tour se tareekh aur kitabuttib ke mazameen sahi hain?
جواب دیںحذف کریںاختلاف مطالع او عدم یی وجه او علت سه شی ده ؟
جواب دیںحذف کریںاو په دور حاضر کی اختلاف مطالع سنګه ارزوی۔
پدی هکله د علماء امت قول فیصل شته؟
هیله کوم