ہفتہ، 7 نومبر، 2020

نظر سے متعلق شرعی احکام

سوال :

مفتی صاحب ! نظر لگنا کیا ہے؟ نظر لگنے کی علامت کیا ہے؟ اگر لگ جائے تو کس چیز سے نظر اتارنا چاہیے؟ مچھلی کے بچے ہوئے حصہ سے یعنی کانٹے وغیرہ سے، نمک سے، مرچ جیسی چیزوں کو اوپر سے نیچے گھماتے ہیں اور کہتے ہیں نظر اُتر گئی۔ ہمارے معاشرے میں اسکا چلن بہت ہے۔ کیا یہ سب باتیں درست ہیں؟ شریعت کیا کہتی ہے؟ کسی حدیث میں اسکا ذکر ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مکی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نظر کا لگ جانا حقیقت ہے، یہ کوئی توہم پرستی یا باطل عقیدہ نہیں ہے۔ ذخیرہ احادیث میں نظر لگ جانے سے متعلق متعدد روایات ملتی ہیں۔

مسلم شریف میں ہے :
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : نظر بد حق ہے، یعنی نظر لگنا ایک حقیقت ہے اگر تقدیر پر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی تو وہ نظر ہی ہوتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دو۔

نظر حق ہے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے والے کی نظر میں کسی چیز کا سما جانا اور اچھا لگنا خواہ وہ چیز جاندار یعنی انسان و حیوان ہو، یا غیر جاندار جیسے مال و اسباب ہو اور پھر اس چیز پر دیکھنے والے کی نظر کا اثر انداز ہو جانا ایک ایسی ثابت شدہ حقیقت ہے جو تقدیر الہٰی سے متعلق ہے، چنانچہ حق تعالیٰ نے سحر و جادو کی طرح بعضوں کی نظر میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ جس چیز کو لگ جاتی ہے اس کی ہلاکت و تباہی اور نقصان کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ 

اگر تقدیر الٰہی پر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی " کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا مرکز و منبع، تقدیر الٰہی ہے کہ بڑی سے بڑی طاقت کا اثر و نفوذ بھی تقدیر الٰہی سے پابستہ ہے اور چھوٹے سے چھوٹے تک کی حرکت و سکون بھی تقدیر الٰہی کے بغیر ممکن نہیں ، گویا کوئی چیز بھی تقدیر کے دائرہ سے باہر نکلنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اگر بالفرض کوئی چیز ایسی طاقت رکھ سکتی کہ وہ تقدیر کے دائرہ کو توڑ کر نکل جائے تو وہ نظر بد ہوتی کہ وہ تقدیر کو بھی پلٹ دیتی اور اس پر غالب آجاتی، گویا یہ بات اشیاء میں تاثیر نظر کی شدت اور اس کے سرعت نفوذ کو زیادہ سے زیادہ کے ساتھ بیان کرنے کے لئے فرمائی گئی ہے۔ 

اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے۔" اس وقت عرب میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو نظر لگتی تھی اس کے ہاتھ پاؤں اور زیر ناف حصے کو دھو کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے تھے جس کو نظر لگتی تھی اور اس چیز کو شفا کا ذریعہ سمجھتے تھے اس کا سب سے ادنیٰ فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اس ذریعہ سے مریض کا وہم دور ہو جاتا تھا ۔چنانچہ رسول کریم ﷺ نے اس کی اجازت دی اور فرمایا کہ اگر تمہاری نظر کسی کو لگ جائے اور تم سے تمہارے اعضاء دھو کر مریض پر ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کو منظور کرلو۔ (مشکوٰۃ مترجم)

شرح السنہ میں ہے :
حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سہل ابن حنیف کہتے ہیں کہ (ایک دن) عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (میرے والد) سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہاتے ہوئے دیکھا (یعنی ستر چھپائے ہوئے) تو کہنے لگے کہ اللہ کی قسم (سہل کے جسم اور ان کے رنگ و روپ کے کیا کہنے) میں نے تو آج کے دن کی طرح (کوئی خوب صورت بدن کبھی) نہیں دیکھا۔ اور پردہ نشین کی بھی کھال (سہل کی کھال جیسی نازک وخوش رنگ) نہیں دیکھی۔ ابوامامہ کہتے ہیں کہ (عامر کا) یہ کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوا (جیسے) سہل کو گرا دیا گیا (یعنی ان کو عامر کی ایسی نظر لگی کہ وہ فوراً غش کھا کر گر پڑے) چنانچہ ان کو اٹھا کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ " یا رسول اللہﷺ ! آپ سہل کے علاج کے لیے کیا تجویز کرتے ہیں؟ اللہ کی قسم یہ تو اپنا سر بھی اٹھانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ کیا کسی شخص کے بارے میں تمہارا خیال ہے کہ اس نے ان کو نظر لگائی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ (جی ہاں) عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ہمارا گمان ہے کہ انہوں نے نظر لگائی ہے، راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) عامر کو بلایا اور ان کو سخت سست کہا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں مار ڈالنے کے درپے ہوتا ہے! تم نے سہل کو برکت کی دعا کیوں نہیں دی؟ ( یعنی اگر تمہاری نظر میں سہل کا بدن اور رنگ و روپ بھا گیا تھا تو تم نے یہ الفاظ کیوں نہ کہے "بَارَکَ اللهُ عَلَیْکَ"  تاکہ ان پر تمہاری نظر کا اثر نہ ہوتا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر کو حکم دیا کہ ( تم سہل کے  لیے اپنے اعضاء کو ) دھوؤ اور اس پانی کو اس پر ڈال دو، چنانچہ عامر نے ایک برتن میں اپنا منہ ہاتھ کہنیاں گھٹنے دونوں پاؤں کی انگلیوں کے پورے اور زیر ناف جسم ( یعنی ستر اور کولھوں) کو دھویا اور پھر وہ پانی جس سے عامر نے یہ تمام اعضاء دھوئے تھے سہل پر ڈالا گیا، اس کا اثر یہ ہوا کہ سہل فوراً اچھے ہو گئے اور اٹھ کر لوگوں کے ساتھ اس طرح چل پڑے، جیسے ان کو کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔

معلوم ہوا کہ نظر جادو سے زیادہ خطرناک ہے اور عام ہے، جادو اور نظر کی اکثر علامات ملتی جلتی ہیں ہاں بعض علامات سے پہچانا جا سکتا ہے کہ یہ جادو نہیں نظر ہے، نظر یا تو کسی کے حسد کی وجہ سے لگتی ہے یا پھر تعجب کی، یاد رہے تعجب کی نظر ماں باپ کی بھی لگ جاتی ہے یعنی والدین بھی اگر بچوں کو دعا نہ دیں تو بچے ان کی نظر کے بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا جب کوئی پسند آئے یا کسی کی تعریف کی جائے تو ماشاءاللہ، سبحان اللہ، الحمدللہ کہا جائے یا برکت کی دعا دی جائے۔

نظر کس کی لگی ہوئی ہے؟ یہ جاننے کے لیے کچھ اندازے لکھے گئے ہیں، مثلاً جن کی نظر لگی ہوتی ہے ان کو دیکھ کے انسان کی طبیعت عموماً خراب ہوتی ہے غصہ چڑچڑا پن عجیب سی بے چینی محسوس ہوتی ہے یا پھر انسان کسی کو خواب میں دیکھتا ہے جو صرف ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھ رہا ہوتا ہے کہتا کرتا کچھ نہیں ہے۔ ملحوظ رہے کہ یہ اندازے ہیں انہیں یقینی نہ سمجھا جائے۔

احادیث میں نظر لگنے کی کوئی مخصوص علامت نہیں بیان کی گئی ہے۔ البتہ تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر لگنے کی علامات درج ذیل ہوسکتی ہیں۔

1) درد کا آنکھوں اور کنپٹیوں سے شروع ہو کر سر کی جانب پھیلنا اور پھر کندھوں سے اترتے ہوئے ہاتھ پاؤں کے کناروں میں پھیل جانا۔
2) جسم پر عموماً چہرے کمر اور رانوں میں سرخ نیلے دانوں کا بکثرت نکلنا یا دھبے بننا۔
3) بکثرت پیشاب کا آنا اور قضائے حاجت کیلئے جانا۔
4) بہت زیادہ پسینہ آنا خصوصا ماتھے اور کمر میں۔
5) دل کی دھڑکن کا کم یا زیادہ ہونا دل ڈوبتا محسوس ہونا اور موت کا خوف۔
6) چہرے کا زردی مائل ہو جانا۔
7) تلاوت نماز اور دم کے درمیان بکثرت جمائیاں آنا اور آنسوؤں کا بہنا۔
8) پڑھائی اور کام سے دل کا اچاٹ ہو جانا حافظے کا کمزور ہونا اور بے توجہی میں رہنا۔
9) مسلسل تھوک بہنا جھاگ کی مانند یا سفید بلغم۔
10) سوتے میں یا دم کے درمیان آنکھیں دیکھنا یا کسی کو ٹکٹکی باندھ کر اپنی طرف دیکھنا۔
11) جسم میں خارش اور چیونٹیاں رینگتی محسوس کرنا۔
12) آنکھوں کا شدت سے پھڑپھڑانا جھپکنا۔
13) ہاتھ اور پاوں کے کناروں میں سوئیاں چبھنا اور ٹھنڈا رہنا۔
14) جسم کا بہت زیادہ گرم رہنا۔
15) انسان کا اپنے آپ سے لاپرواہ ہو جانا خصوصاً عورتوں کا اپنی آرائش و زیبائش سے بے نیاز ہوجانا۔
16) بچوں کا ماں کا دودھ نہ پینا بہت زیادہ رونا۔
17) پلکوں اور بھنووں پر بوجھ۔
18) آنکھوں میں عجیب سی تیز چمک۔
19) جوڑوں میں بوجھ محسوس کرنا۔
(مستفاد : صفہ دارالافتاء)

نظر بد دور کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جس آدمی کے بارے میں معلوم ہوکہ اس کی نظر لگی ہے، اُسے وضو کرایا جائے اور اُس کے استعمال شدہ پانی کو کسی برتن میں جمع کرلیا جائے اور پھر جسے نظر لگی ہے اُس پانی سے  اُس کو غسل کرا دیا جائے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کردہ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس پر عمل کرنا ہر ایک کے لیے آسان نہیں ہے۔ لہٰذا درج ذیل آیات اور دعاؤں کا پڑھ کر مریض پر دم کرنا زیادہ آسان اور مؤثر ثابت ہوگا۔

سورۂ فاتحہ، آیۃ الکرسی، معوذتین (قل أعوذ بربّ الفلق، قل أعوذ بربّ الناس) سورہ قلم کی آخری تین آیات

فَاجْتَبَاہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ - وَإنْ یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِأَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوْا الذِّکْرَ وَیَقُوْلُوْنَ إنَّہٗ لَمَجْنُوْنٌ - وَمَا ہُوَ إلا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ -

زیادہ بہتر ہے کہ یہ تمام آیات اور دعائیں پڑھ لی جائیں، البتہ اگر چند ایک اکتفا کرلیا جائے تب بھی ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔

مسنون دعائیں :

أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ۔ (بخاری)

أعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّآمّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ۔ (مسلم)

اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ، مُذْهِبَ البَأسِ، اِشْفِ أَنتَ الشَّافي، لا شَافِي إِلاَّ أَنْتَ، شِفاءً لا يُغادِر سَقَماً۔ (بخاری)

بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عيْنِ حَاسِدٍ، اللَّهُ يشْفِيك، بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ۔ (مسلم)

بِسْمِ اللهِ اَللّٰهُمَّ أَذْهِبْ حرَّهَا وَبَرْدَهَا وَوَصْبَهَا۔ (مسند احمد)

سوال نامہ میں مذکور اعمال اگرچہ حدیث شریف سے ثابت نہیں ہیں، لیکن انہیں مؤثر بالذات نہ سمجھا جائے تو بطور ٹوٹکہ اور علاج ان پر عمل کرنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی مشرکانہ کلمہ یا عمل نہ ہو۔ مسئلہ ھذا میں دارالعلوم دیوبند کا فتوی بھی ملاحظہ فرمالیں :

نظر اُتارنے کے لئے مذکورہ عمل کی گنجائش ہے، شرعاً اس میں حرج نہیں، اسی طرح سات لال مرچوں پر ایک ایک مرتبہ یہ آیت کریمہ : وَإن یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِأبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ ، وَیَقُوْلُوْنَ إنَّہ لَمَجْنُوْن، وَمَا ہُوَ إلَّا ذِکْرٌ لِلعَالَمِیْن۔ پڑھ کر دم کرکے بیمار کے جسم کے اوپر سر تا پیر تین مرتبہ گھما کر جلا دینا بھی نظر دور کرنے کے لئے مجرب عمل ہے۔ (رقم الفتوی : 165373)

تاہم بہتر یہی ہے کہ درج بالا آیات اور مسنون دعاؤں کا اہتمام کیا جائے۔ امید ہے کہ درج بالا تفصیلات میں آپ کے سوالوں کے تمام جوابات آگئے ہوں گے۔

لا بأس بوضع الجمامم في الزرع والمطخۃ لدفع ضرر العین؛ لأن العین حق تصیب المال والآدمي والحیوان، ویظہر أثرہ في ذلک۔ (شامي ۶؍۳۶۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ربیع الاول 1442

14 تبصرے:

  1. اللہ آپکو بہترین جزاءخیر عطا فرماۓ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاء اللہ، جزاک اللہ خیرا مفتی صاحب
    بارک اللہ وزادک اللہ فیک... 🥀🌷🌹
    توصیف اشتیاق.

    جواب دیںحذف کریں
  3. اللہ رب العزت آپ کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائےمدلل ومفصل تشفی بخش رہمنائی کی ہے
    جزاکم اللہ۔خیر"ا واحسن الجزا
    حبیب الرحمان ملی۔مقیم۔بھیونڈی

    جواب دیںحذف کریں
  4. السلام واعلیکم مفتی صاحب مسلہ یہ ہے کہ حاضر دور میں عامل حضرات ہر دوسرے آدمی کو آثرات بتا تے ہے تو کسی جوان کا رشتہ کرنا ہو تو لڑکی والوں کو اسکے یہ امراض بتانا ضروری ہے یا نہیں یا کسی کو کوی ایسا اثر ہو جاے کہ وہ نکاح نہ کرنے دے مگر اس لڑکے آگر کا رشتہ کردے ٧یا ٨ مہین بعد نکاح کا وقت مقرر کرے اور یہ سب لڑکی والوں کو نہ معلوم کرکے کرے تو کیا یہ ٹھیک ھوگا یا نہیں اور نکاح کے بعد کوچھ ہو جاے تو لڑکے کے کفیل بھی اچھے ہے بعد میں بھی علاج کراسکتے

    جواب دیںحذف کریں
  5. ماشاءاللہ مفتی صاحب، بہت ہی مفصل اور تشفی بخش!!! اللہ کریم آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. اللہ رب العزت آپ کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائےمدلل ومفصل تشفی بخش رہمنائی کی ہے
    جزاکم اللہ۔خیر"ا واحسن الجزا

    جواب دیںحذف کریں
  7. جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  8. ماشاءاللہ احسن احسن

    جواب دیںحذف کریں
  9. اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
    ماشاءاللہ آپ بہت ہی اچھا جواب دٸیے ہیں اللہ تعالی آپ کے علم سے ہم سبھی کو فاٸدہ پہنچاٸیں اور آپ کو علم و عمل صالح کی توفیق عطا کریں آمین

    جواب دیںحذف کریں
  10. سوال مفتی صاحب ، قرنی کیاہے ، قرنی کی علامت کیا ہے، ہمارے معاشرے میں اسکا چلن بہت ہے، کیا یہ سب باتیں درست ہے، شریعت کیا کہتی ہے، کسی حدیث میں اسکا ذکر ہے ،رہنمائی فرمائے

    جواب دیںحذف کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم