سوال :
محترم جناب مفتی صاحب! بعض مرتبہ عورت ناراض ہوکر اپنے میکے چلی جاتی ہے،(جس کو مالیگاؤں کی زبان میں غوصیا کر بیٹھنا بولتے ہیں) اور شوہر بھی طیش میں آکر یہ کہہ دیتا ہے کہ اب اسے نہیں لاؤں گا، تو کیا اس طرح سے طلاق واقع ہوگی؟ اور اگر ہوئی تو کونسی طلاق واقع ہوگی ؟
(المستفتی : افضال احمد ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے کہا ہے کہ "اب نہیں لاؤں گا" تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی، کیونکہ یہ جملہ کنایہ اور اشارہ کا ہے جو نیت کا محتاج ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر کہنے والے کی نیت طلاق دینے کی ہوگی تو طلاق واقع ہوجائے گی۔
طلاق بائن کا حکم یہ ہے کہ بیوی اسکے نکاح سے فوراً نکل جائے گی، اب اگر شوہر کو اسے اپنے نکاح میں باقی رکھنا ہوتو صرف رجوع سے کام نہیں چلے گا، بلکہ عدت کی مدت میں بھی اسے دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا ہوگا۔ اگر عدت گزر جائے تب بھی وہ اس کی مرضی سے اس سے نکاح کرسکتا ہے، اس صورت میں شرعی حلالہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اور اگر طلاق دینے کی نیت سے یہ جملہ نہیں کہا گیا ہے تو کوئی طلاق نہیں ہوگی۔
سرحتک فارقتک لایحتمل السب والرد۔ ففي حالۃ الرضا تتوقف الأقسام الثلاثۃ تاثیراً علی نیۃ، للاحتمال والقول لہ بیمینہ في عدم النیۃ۔ (الدر المختار مع تنویر الأبصار / باب الکنایات، ۴؍۵۳۲-۵۳۳ زکریا)
ویقع بباقیہا : أي باقي ألفاظ الکنایات المذکورۃ البائن إن نواہا۔ (الدر المختار / باب الکنایات، ۴؍۵۳۴ زکریا)
إذا کان الطلاق بائناً دون الثلاث فلہ أن یتزوجہا في العدۃ وبعد انقضائہا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/۴۷۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ربیع الاول 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں