قارئین کرام! ہمارے معاشرے میں متعدد سماجی واخلاقی برائیاں پنپ رہی ہیں، جن میں ایک بڑی برائی جسے سوشل میڈیا نے کافی بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ تحفظ بھی فراہم کیا ہے وہ ہے کسی پر تہمت اور بہتان لگانا۔ آج کل کوئی بھی اپنی شناخت چھپاکر یا پھر ظاہر کرکے کسی کی بھی طرف کوئی بھی غلط بات منسوب کردیتا ہے، اور یہ تہمت منٹوں میں پورے شہر میں پھیل جاتی ہے، بلکہ اگر پھیلانے والے چاہیں تو اسے پوری دنیا میں بھی پھیلا سکتے ہیں، اور عموماً ان پر کوئی قانونی گرفت بھی نہیں ہوتی۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم اس فعل کی قباحت کو قرآن و احادیث کی روشنی میں بیان کریں گے تاکہ نصیحت قبول کرنے والے افراد اس کی قباحت جاننے کے بعد اس سے باز آجائیں اور من مانی کرنے والے بدبختوں پر حجت تمام ہوجائے، نیز جن لوگوں پر بہتان لگایا جاتا ہے ان کی بھی دلجوئی اور تسلی کا سامان ہوجائے۔
معزز قارئین! شریعتِ مطہرہ میں کسی پر بھی تہمت اور بہتان لگانا (یعنی کسی کی طرف ایسا کوئی غلط قول یا فعل منسوب کرنا جو اس نے انجام نہ دیا ہو) شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔ جس پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
معلوم ہونا چاہیے کہ بہتان تراشی کو علماء نے جھوٹ میں شمار کرنے کے ساتھ ساتھ علیحدہ طور پر بھی کبیرہ گناہ شمار کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایسا جھوٹ ہے جس کے بارے میں خاص طور پر درج ذیل شدید وعیدیں آئی ہیں، لہٰذا اسے علیحدہ ذکر کیا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں بے گناہ مؤمنین اور بے گناہ مؤمنات کو زبانی ایذا دینے والوں یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ قرار دیاہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کا مال، عزت اور خون حرام ہے، آدمی کے برا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ (ابوداؤد)
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : پانچ چیزوں کا کوئی کفارہ نہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا (۲) ناحق قتل کرنا (۳) مومن پر تہمت لگانا (۴) میدانِ جنگ سے بھاگ جانا اور (۵) ایسی جبری قسم جس کے ذریعے کسی کا مال ناحق لے لیا جائے۔ (مسند احمد)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ (معجم اوسط)
ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک رَدْغَۃ ُ الخَبال (یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا۔) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہوجائے۔ (ابوداؤد)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔ (کنز العمال)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : اے وہ لوگوں جو اپنی زبانوں سے ایمان لائے ہو مگر ایمان ان کے دلوں میں نہیں اترا ہے، مسلمانوں کی بدگوئی نہ کیا کرو اور نہ ان ان کے عیوب کے درپہ ہوا کرو بلاشبہ جو شخص ان کے عیوب کے درپے ہوگا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کے درپے ہوں گے اور اللہ جس کے عیوب کے درپے ہوں گے تو اسے اس کے گھر کے اندر رسوا کردیں گے۔ (ابوداؤد)
یعنی آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ دوسروں پر بہتان اور الزام تراشی کرکے بچ جائیں گے تو یہ آپ کی خام خیالی ہے، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پکڑ فرمالی تو پھر آپ کو گھر بیٹھے ذلیل کردیا جائے گا، اس کی مثال ہمارے معاشرے میں آپ کو بآسانی سے مل جائے گی جو دوسروں پر کیچڑ اچھالا کرتے تھے جب اللہ تعالیٰ کی گرفت آئی تو ایسا ذلیل ہوئے کہ آج ان کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔
محترم قارئین! تہمت اور بہتان کا زہر بڑا خطرناک ہوتا ہے، جو بہت دیر تک اثر انداز ہوتا ہے اس کی مثال اس فرضی کہانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ ایک گاؤں میں پنچائت لگی ہوئی تھی، معاملہ بھینس چوری کا تھا، گاؤں کے اسکول کے ماسٹر صاحب بھی موجود تھے، اچانک ایک دیہاتی ہانپتا ہوا وہاں آیا اور بلند آواز سے کہنے لگا : ماسٹر جی! وہ بھینس آپ کے باڑے سے مل گئی ہے۔ یہ سن کر ماسٹر صاحب نے اپنا سر پکڑ لیا، پنچائیت کے لوگ بھی حیرت زدہ رہ گئے، لیکن ماسٹر صاحب کے سامنے کچھ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی لہٰذا ایک ایک کرکے کِھسَک لئے۔ وہ دیہاتی بھی چلا گیا۔ ماسٹر صاحب شرمندگی اور افسوس کے مارے وہیں سکتے کے عالم میں بیٹھے رہے۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ دیہاتی دوبارہ بھاگتا ہوا آیا اور ماسٹر صاحب کے پاؤں پکڑ کر کہنے لگا : مجھےمعاف کردیں ! وہ بھینس آپ کے باڑے سے نہیں بلکہ ساتھ والے باڑے سے ملی ہے۔ ماسٹر جی صدمے کی حالت میں اتنا ہی کہہ سکے : اب تم سارے گاؤں میں اعلان بھی کروا دو تو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ لوگ اب مجھے ”چور“ کے نام سے یاد کیا کریں گے۔
یعنی ایک مرتبہ کسی کے اوپر تہمت لگ جائے تو پھر ساری زندگی کہیں نہ کہیں و اس گناہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، خواہ بہتان باندھنے والا خود ہی اس کی صفائی کیوں نہ دے دے۔
جن لوگوں پر تہمت لگائی جاتی ہے، بلاشبہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے یہاں مظلوم ہوتے ہیں، ان کے دل سے اگر بددعا نکل جائے تو بہتان لگانے والوں کی دنیا وآخرت دونوں برباد ہوجائے گی۔ جن لوگوں پر بہتان لگایا گیا ہو ان کے لیے درج ذیل حدیث شریف میں بڑی بشارت اور تسلی کا سامان ہے اور بہتان لگانے والوں کے لیے عبرت کا سبق ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا : کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کی : ہم میں مفلِس(یعنی غریب مسکین) وہ ہے جس کے پاس نہ دِرہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا : میری اُمّت میں مُفلِس وہ ہے جو قِیامت کے دن نَماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فُلاں کوگالی دی ہوگی، فُلاں پر تہمت لگائی ہوگی، فُلاں کا مال کھایا ہو گا،فُلاں کا خون بہایا ہوگا اورفُلاں کو مارا ہوگا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کاحصّہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حُقُوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم)
لہٰذا جن لوگوں نے بھی اس سنگین اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہو ان پر لازم ہے کہ وہ براہ راست صاحبِ معاملہ سے مل کر اس کا تصفیہ کرلیں اور حتی الامکان اس الزام کو زائل کرنے کی کوشش کریں، ورنہ یہ حقوق العباد ہے جس کا بروز حشر پورا پورا حساب لیا جائے گا۔ نیز جو لوگ ایسی خبروں کو سوشل میڈیا پر وائرل کردیتے ہیں وہ بھی اس گناہ میں ان کے شریک ہوتے ہیں، لہٰذا ایسے لوگوں کو بھی اپنی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی تمام طرح روحانی بیماریوں سے حفاظت فرمائے اور اخلاق حسنہ سے مالا مال فرمائے۔ آمین ثم آمین
بہت خوب مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریں" مَیں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے."
ائمہ حضرات کا اتفاق پڑتے ہی رہتا ہے اس صورتحال سے...
توصیف اشتیاق
ماشاء اللہ بہت ہی عمدہ تحریر
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالی ہم سب کی حفاظت کرے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین سہی
جواب دیںحذف کریں