سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید کہتا ہے کہ پوری نماز میں سیدھے پیر کا انگوٹھا اپنی جگہ اٹھنا اور ہلنا نہیں چاہیے، ورنہ نماز نہیں ہوگی، کیا زید کی بات درست ہے؟ باحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد حسان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احادیث اور کتب فقہ میں باقاعدہ اس طرح کوئی حکم نہیں ہے کہ نماز میں دائیں پیر کا انگوٹھا ہلنا یا اٹھنا نہیں چاہیے۔ لیکن اگر نماز سنت کے مطابق ادا کی جائے گی تو دائیں پیر کا انگوٹھا خود بخود زمین پر ٹکا رہے گا، اٹھے گا نہیں۔ البتہ سجدہ کرتے وقت اپنی جگہ سے کھسک سکتا ہے۔
فتاوی دارالعلوم میں ہے :
صورت مسئولہ میں مصلیوں کی یہ بات کہ نماز میں داہنے پیر کا انگوٹھا ایک ہی جگہ رہے اور ہلنا درست نہیں ہے،شرعاً اس کی کوئی اصل نہیں ہے، اگر نماز میں پیر کا انگوٹھا ہل گیا تو اس سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی۔ (۲؍۱۵۲)
معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں زید کی بات قطعاً درست نہیں ہے، اسے اپنے قول سے رجوع کرنا چاہیے۔ البتہ قصداً نماز میں دائیں پیر کے انگوٹھے کو اٹھانا مکروہ ہے کیونکہ نماز میں پیروں کی انگلیاں قبلہ رُخ رکھنا سنت ہے۔ تاہم اس صورت میں بھی نماز ہوجائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
ویفترض وضع أصابع القدم ولو واحدۃ نحو القبلۃ وإلا لم تجز۔ (درمختار، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ۲/۲۰۴)
وإن وضع إصبعا واحدۃ، فلو وضع ظہر القدم دون الأصابع… تجوز صلاتہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ۱/۱۲۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ربیع الآخر 1442
جزاکم اللہ خیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریں