سوال :
عرض تحریر ہے کہ معاشرے میں مشہور ہے کہ اماوس کی راتوں میں ہمبستری کرنا اور کسوف و خسوف میں حاملہ عورتوں کا کسی چیز کا کانٹا وغیرہ آفت و مصیبت کو دعوت دینا ہے، پس اسی خیالات قدیم کو معاشرے کے دماغ سے دور کرنے کے لیے بندہ آپ سے عرض پرداز ہے۔ امید پیہم ہے کہ آپ اس کا ازالہ قرآن و سنت سے فرمائیں گے۔
(المستفتی : ابرارالحق قریشی، ضلع احمد نگر)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سورج اور چاند کو گرہن لگنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تنبیہ فرماتے ہیں کہ جو قادرِ مطلق اللہ تعالیٰ سورج سے روشنی اور چاند سے چاندنی عطا فرماتے ہیں وہی ان کو ماند کردینے پر بھی قادر ہیں۔ اور وہی چاند کو اس کی آخری تاریخوں میں انسانی آنکھوں سے اوجھل کردیتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں آپ کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد سورج گرہن ہوگیا، اس زمانے میں لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی وفات یا پیدائش کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسا کہ ابھی آپ کے بیٹے کی وفات پر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عقیدے کی تردید فرما دی۔
بخاری شریف میں ہے :
بلاشبہ سورج اور چاند کسی کے مرنے کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے ہیں، لیکن وہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، لہٰذا جب تم سورج چاند گرہن دیکھو تو کھڑے ہوجاوٴ اور نماز پڑھو۔ (رقم : ١٠٤٢) اور ایک روایت میں صدقہ دینے کا حکم بھی وارد ہوا ہے۔ (ابوداؤد، رقم : ١١)
یعنی سورج یا چاند گرہن کے وقت مسلمانوں کو اصل حکم یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں، اور یہ حکم مردوں اور عورتوں (جن میں حاملہ عورتیں بھی ہیں) سب کے لیے ہے۔
گرہن سے متعلق عوام کے ایک طبقہ میں طرح طرح کی توہمات رائج ہیں۔ مثلاً : اس وقت کھانا نا کھانا، حاملہ عورت کا گھر کے کام کاج سے رکے رہنا، خصوصاً چھری کے استعمال سے اجتناب کرنا، اسی طرح اماوس کی رات میں ہمبستری کو نقصان دہ سمجھنا جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ شریعت مطہرہ میں گرہن یا اماوس کے وقت اس طرح کا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے، اور جہاں تک ہماری تحقیق ہے طبی لحاظ سے بھی ان اوقات میں مذکورہ اعمال کے کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ یہ تمام باتیں توہم پرستی کی ہیں اور سراسر باطل عقائد پر مبنی ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا مسلمانوں کے لیے ان باطل عقائد کا ترک کرنا ضروری ہے۔
قال اللہ تعالٰی : وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔ (سورۃ التکویر، آیت : ۲۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ربیع الاول 1442
شکریہ جناب
جواب دیںحذف کریں