سوال :
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام و علماء دین متین اس مسئلہ میں کہ نکاح ثانی کی اجازت قرآن پاک و احادیث مبارکہ میں ثابت ہے لیکن موجودہ ماحول میں اگر کوئی شخص نکاح ثانی کا ارادہ کرتا ہے تو رشتہ دار مخالفت کرتے ہیں اور عوام الزام تراشی کرتی ہے جس کی وجہ سے جو عمل شریعت میں پسندیدہ اور مطلوب تھا وہ معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ وہ مرد حضرات جو ایک سے زائد نکاح کی قدرت رکھنے کے باوجود ایک ہی پر اکتفاء کرتے ہیں حالانکہ معاشرہ میں بیوہ مطلقہ عورتیں پریشان ہیں، یا وہ بیویاں جو اپنے شوہروں کو نکاح ثانی سے روکتی ہیں اور کیا وہ آخرت میں قابل مؤاخذہ ہوں گی یا نہیں؟ یا وہ سرپرست جو اپنی عزت کا مسئلہ بنا کر رکاوٹ پیدا کرتے ہیں؟ نیز نکاح ثانی کو عوام و خواص کا معیوب سمجھنا اور نکاح ثانی کرنے والے کو معتوب و مطعون کرنا کیسا ہے؟ اور موجودہ حالات میں مطلقہ اور بیوہ عورتوں کی کثرت کے پیش نظر کیا نکاح ثانی کو رواج دینا ضروری نہیں تاکہ مسلم معاشرہ برائیوں سے پاک ہو؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر ممنون و مشکور ہوں۔
(المستفتی : شمس العارفین ملی، کسمباروڈ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آپ کے سوالات بلاشبہ کافی اہمیت کے حامل ہیں، اس لیے سب سے پہلے سمجھ لیا جائے کہ عام حالات مردوں کے لئے ایک سے زائد نکاح کرنا جائز ہے، فرض، واجب یا سنت نہیں۔ اور اس میں بنیادی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے ذاتی ودینی حالات کی روشنی میں اپنے اوپر یہ بھروسہ رکھتا ہو کہ وہ ایک سے زائد بیویاں رکھ کر ان کے درمیان حقوق واجبہ کماحقہ ادا کردے گا۔ مثلاً لباس پوشاک، نان و نفقہ، رہائش کی فراہمی اور شب باشی وغیرہ میں برابری، یہاں تک کہ ایک بیوی کے پاس جتنی راتیں گزارے اتنی ہی راتیں دوسری بیوی کے پاس بھی گزارے گا، اور ایک بیوی کو جتنا نان و نفقہ و دیگر ضروریات کا سامان چھوٹی بڑی تمام اشیاء تحفہ تحائف وغیرہ دے اتنا ہی دوسری بیوی کو بھی دے گا۔ اسی کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کوئی اپنی بیویوں کے درمیان برابری نہ کرے تو ایسے شخص کے لیے احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں : جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ گرا ہوا ہوگا۔
دوسری حدیث میں ہے کہ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور ان میں سے ایک کی طرف مائل ہوگیا تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ اس کے جسم کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی۔
لہٰذا عام حالات میں اگر کوئی آدمی ان سخت وعیدوں کے پیشِ نظر ایک ہی نکاح پر اکتفا کرے یا والدین اگر انہیں وعیدوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اپنی اولاد کو ایک سے زائد نکاح سے منع کریں تو شرعاً ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
البتہ اگر آدمی کو اپنے اوپر پورا یقین ہو کہ وہ بیویوں کے درمیان انصاف کرلے گا، نیز اسے اس بات کا اندیشہ بھی ہو کہ ایک سے زائد نکاح نہ کرنے کی صورت میں وہ گناہ میں مبتلا ہوسکتا ہے، یا پھر وہ کسی مطلقہ یا بیوہ کو سہارا دینے کی نیت سے ایک سے زائد نکاح کرے تو پھر ایسے شخص کو بیوی یا والدین میں سے کسی کا بھی روکنا اور اسے بدنامی کا ذریعہ سمجھنا ناجائز اور گناہ کی بات ہے، ایسی صورت میں اس آدمی پر ان کی باتوں کا ماننا بھی ضروری نہیں۔
بلاشبہ اس سلسلے میں عوام بلکہ خواص کا بھی ایک طبقہ بدگمانی کا شکار ہے، ایک جائز کام بلکہ بوقت ضرورت سنت اور ثواب کے کام کو عیاشی سمجھنا اور ایک سے زائد نکاح کرنے والوں کو معتوب ومطعون کرنا ناجائز اور حرام کام ہے، ایسے لوگوں کو اس سنگین گناہ سے باز رہنا چاہیے، ورنہ عنداللہ ان کی سخت گرفت ہوگی۔ اور اس بدگمانی کی ایک وجہ وہی غلط طرز عمل ہے، یعنی ایک سے زائد نکاح جیسی سہولت اور نعمت کو چھوڑ کر غلط اور ناجائز طریقہ اختیار کرنا ہے۔ مثلاً ایک شادی شدہ مرد کے کسی کنواری، مطلقہ یا بیوہ سے ناجائز تعلقات ہوتے ہیں، اور جب ان کا گناہ لوگوں کے سامنے آجاتا ہے تو پھر دو کام ہوتے ہیں یا تو ہزاروں لاکھوں روپے کی توڑی کی جاتی ہے یا پھر ان کا آپس میں نکاح کروا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں نے دوسرا یا تیسرا نکاح کیا ہے تو وہ بغیر تحقیق کے یہی سمجھ لیتے ہیں کہ اس نے کسی غلط معاملہ میں پھنس کر نکاح کیا ہوگا۔ جبکہ بلاتحقیق کسی کے بارے میں کوئی غلط رائے قائم کرلینا سخت گناہ کی بات ہے۔ کیونکہ باقاعدہ رشتہ بھیج کر دوسرا تیسرا نکاح کرنا ہمارے معاشرے میں کم ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ سوال نامہ میں جن مطلقہ اور بیوہ عورتوں کا حوالہ دیا جارہا ہے کیا وہ کسی کی دوسری تیسری یا چوتھی بیوی بننا پسند کرتی ہیں؟ آج المیہ یہ ہے کہ بیوہ اور مطلقہ عورتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر کی اکلوتی بیوی ہوں، خواہ وہ عمر میں ان سے تقریباً دوگنی عمر کا کیوں نہ ہو، ہمارے معاشرہ میں اس کا بآسانی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اس سلسلے میں صرف بیویوں کو ہی قصوروار نہ سمجھا جائے بلکہ مطلقہ اور بیوہ نیز عمردراز کنواری خواتین اور ان کے سرپرستوں کو بھی اپنا ذہن بنانے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ برائیوں سے پاک ہو اورصالح اور پاکیزہ بنے۔
نوٹ : نکاح سے پہلے یا بعد میں دوسری بیوی سے اگر معاہدہ کرلیا جائے کہ اسے پہلی بیوی کی بہ نسبت وقت کم دیا جائے گا یا دیگر حقوق کی ادائیگی میں کمی بیشی ہوسکتی ہے تو پھر ایسی صورت میں شوہر گناہ گار نہیں ہوگا۔
قال اللہ تعالیٰ : فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا۔ (سورہ نساء، آیت : ۳)
عن أبي ھریرة رضي الله عنه عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال : إذا کانت عند الرجل امرأتان فلم یعدل بینھما جاء یوم القیامة وشقہ ساقط۔(مشکوة شریف ص ۲۷۹، بحوالہ : سنن ترمذی وسنن ابو داود وغیرہ، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)
قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : من كانت له إمرأتان فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة و شقه مائل أي مفلوج۔ (مرقاة المفاتيح، ٦/ ٣٨٤، رشيدية)
ومکروھا لخوف الجور فإن تیقنہ حرم ذلک۔ (الدر المختار مع الشامي : ۴؍۶۶)
ویجب أن یعدل فیہ أي في القسم بالتسویۃ في البیتوتۃ، وفي الملابس والماکول والصحبۃ۔ (الدر المختار) ومما یجب علی الأزواج للنساء العدل والتسویۃ بینہن فیما یملکہ۔ (شامي : ۴؍۳۷۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ربیع الاول 1442
ماشاءاللہ وضاحت کے ساتھ لکھا ہے
جواب دیںحذف کریںجو شکوک وشبہات پیدا ہوتے تھے ان سب کو مدلل انداز میں پیش کیا ہے
جزاک اللہ خیرا بارک اللہ فی علمک
ایک بات اور جب ایک شادی شدہ شخص دوسری شادی کا پیغام بھیجتا ہے تو لڑکی کے گھر والے پہلے ہی مطالبہ رکھتے ہیں کہ ہماری لڑکی کیلئے کوئی گھر اس کے نام کرو ۔۔۔۔اِن کا مطالبہ درست ہے یا نہیں
جواب دیںحذف کریںیہ مطالبہ اگرچہ ناجائز اور حرام نہیں ہے۔ لیکن خلاف مروت ضرور ہے۔
حذف کریںواللہ تعالٰی اعلم
بہت خوب
جواب دیںحذف کریںکافی و شافی جواب
جزاکم اللہ خیرا
ماشاءاللہ مفتی صاحب ،
جواب دیںحذف کریںحلال مشکل ہونے سے حرام بہت آسانی سے بڑھ رہا ہے ،شہر میں ہر 10 میں سے 2۔۔3 افراد کا شادی کے بعد بھی تعلقات دراز ہیں ، اس میں عورتوں اور مردوں کا تناسب تقریباً ایک جیسا ہے،