جمعرات، 12 نومبر، 2020

عرفاتی بھائی بہن کا مسئلہ

سوال :

مفتی صاحب! آج کل لوگ سگے بھائی بہن سے زیادہ عرفاتی بھائی بہن کو بہت اہمیت دیتے ہیں نیز جو لوگ صرف عمرہ بھی کرتے ہیں تو وہ بھی ایک دوسرے کو عرفاتی بھائی کہہ کر بلاتے ہیں آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں عرفاتی بھائی کی وضاحت کریں اگر آپ اس تحریر کو بلاگ پر دیں تو دوسروں کو بھیجنے میں بھی آسانی ہوگی۔
(المستفتی : محمد عامر انجینئر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہمارے یہاں حج کے موقع پر جو لوگ ساتھ ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے کو عرفاتی بھائی بہن کہتے ہیں۔ شریعتِ مطہرہ میں اگرچہ اس طرح کا کوئی حکم نہیں ہے۔ البتہ کسی کو بھائی بہن کہنے کی شرعاً کوئی ممانعت بھی نہیں ہے، لیکن ان کا مقام سگے بھائی بہنوں کی طرح نہیں ہوگا۔

معلوم ہونا چاہیے کہ بھائی بھائی یا بہن بھائی کا رشتہ نسب سے ثابت ہوتا ہے یا پھر رضاعت سے۔ نسب سے ثابت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے ماں باپ ایک ہوں یا کم از کم ماں یا باپ ایک ہوں۔ رضاعت سے ثابت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رضاعت کی مدت یعنی ڈھائی سال سے کم عمر میں دونوں نے ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوا ہے تو اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے جس کی وجہ سے دو لوگوں میں بھائی بھائی یا بہن بھائی کا رشتہ قائم ہو۔

لہٰذا اگر کوئی اپنے ساتھ حج کرنے والوں کو بھائی یا بہن کہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن اس کی وجہ سے مرد وعورت کا آپس میں پردہ ختم نہیں ہوگا، بلکہ یہ لوگ بدستور نامحرم ہوں گے اور جس طرح اجنبی مرد وعورت کے درمیان پردہ ہوتا ہے اسی طرح پردہ کرنا ضروری ہوگا، ورنہ یہ لوگ سخت گناہ گار ہوں گے۔ نیز مردوں کا بھی آپس میں اس طرح کا معاملہ کرنا جس سے معلوم ہوکہ سگے بھائیوں سے زیادہ عرفاتی بھائی کو اہمیت دی جارہی ہے تو یہ بات بھی شرعاً درست نہیں ہے، کیونکہ جو مقام سگے بھائیوں کا ہے وہ دوسروں کا نہیں ہوسکتا۔ اس مسئلہ میں شہر کے ایک طبقہ میں کوتاہی ہوتی ہے، لہٰذا جن لوگوں کو مسئلہ کا علم ہو انہیں دوسروں تک یہ بات پہنچانا چاہیے۔

رہی بات ساتھ میں عمرہ کرنے والوں کا ایک دوسرے کو عرفاتی بھائی بہن کہنا تو یہ عجیب بے وقوفی کی بات ہے، کیونکہ عمرہ میں جب عرفات کے میدان میں قیام ہوتا ہی نہیں ہے تو پھر ان کے عرفاتی ہونے کا کیا مطلب ہے؟ لہٰذا ایسے لوگوں کو اس احمقانہ حرکت سے باز رہنا چاہیے کہ اس میں دھوکہ کا بھی پہلو ہے کیونکہ اس کی وجہ سے انہیں حاجی سمجھا جائے گا۔

قال اللہ تعالیٰ : حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّہَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَاَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ وَخَالَاتُکُمْ وَبَنَاتُ الْاَخِ وَبَنَاتُ الْاُخْتِ وَاُمَّہَاتُکُمُ اللّٰاتِیْ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَۃِ وَاُمَّہَاتُ نِسَآئِکُمْ وَرَبَآئِبُکُمُ اللّٰاتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِنْ نِسَآئِکُمُ اللّٰاتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَاِنْ لَمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَحَلَآئِلُ اَبْنَآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَحِیْمًا۔ (سورۃ النساء : ۲۳)

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من الولادۃ۔ (ابوداؤد شریف، باب یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب، رقم : ۲۰۵۵)

کل امرأۃ حرمت من النسب حرم مثلہا من الرضاع، وہن الأمہات والأخوات والبنات الخ۔ (اعلاء السنن، ۱۱؍۱۲۳، کراچی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ربیع الاول 1442

3 تبصرے:

  1. MashaAllah
    Jazakallah ul khairah

    جواب دیںحذف کریں
  2. جزاک اللہ!
    ہمارے ایک رشتہ دار اپنے سگے لوگوں سے عرفاتی بھائی بہنوں کو اہمیت دیتے ہیں!
    انشاءاللہ یہ تحریر انہیں ضرور بھیجوں گا

    جواب دیںحذف کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم