اتوار، 1 نومبر، 2020

درود شریف میں آل کا مطلب کیا ہے؟

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب! کیا انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی اور کیلئے علیہ السلام کا لقب استعمال کر سکتے ہیں؟ نیز ایک صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ درود شریف میں صرف آل کا تذکرہ ہے اصحاب کا نہیں اس بات کی کیا حقیقت ہے؟
(المستفتی : افضال احمد ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سلف صالحین نے علیہ السلام کے الفاظ کو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ خاص کیا ہے، اس لیے غیر نبی کے ساتھ علیہ السلام لگانا بہتر نہیں ہے۔ بالخصوص حضرت علی، حضرات حسنین رضی اللہ عنہم اجمعین اور ان کی اولاد رحمہم اللہ کے ساتھ علیہ السلام لگانے میں احتیاط کرنا چاہیے، کیونکہ یہ رافضیوں کا شعار بن چکا ہے، اور یہ لوگ اپنے مخصوص عقیدہ کے مطابق انہیں امام اور معصوم عن الخطا سمجھتے ہوئے علیہ السلام کہتے ہیں۔

دوسرے سوال کے جواب کے لیے سب سے پہلے ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا تلقین کیا ہوا درود ذکر کرتے ہیں۔

مسلم شریف میں ہے :
بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے عرض کی : اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے تو ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں؟ انہوں نے کہا : اس پر رسول اللہﷺ خاموش ہوگئے حتیٰ کہ ہم نے تمنا کی کہ انہوں نے آپ سے یہ سوال نہ کیا ہوتا، پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ کہو :اے اللہ! رحمت فرما محمد اور محمد کی آل پر، جیسے تو نے رحمت فرمائی ابراہیم کی آل پر اور برکت نازل فرما محمد اور محمد کی آل پر، جیسے تو نے سب جہانوں میں برکت نازل فرمائی ابراہیم کی آل پر، بلاشبہ تو سزا وار حمد ہے، عظمتوں والا ہے اور سلام اسی طرح ہے جیسے تم (پہلے) جان چکے ہو۔ 

اس درود شریف میں آل کے الفاظ آئے ہیں، چنانچہ آل کا مفہوم ہمیں قرآن کریم درج ذیل آیت سے معلوم ہوتا ہے۔

وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ۔ (سورة البقرة، آیت : 50)

ترجمہ : اور جب ہم نے تمہارے لیے سمندر کو پھاڑ دیا پھر تمہیں تو بچا لیا اور تمہارے دیکھتے دیکھتے فرعونیوں کو ڈبو دیا اور تم دیکھ رہے تھے۔

یعنی جس طرح ابو لہب اور ابو جہل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں ہونے کے باوجود، اس درود میں ابراہیم علیہ السلام کی آل میں شامل نہیں ہیں، اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں ہونے کے باوجود وہ لوگ اس درود ابراہیم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں شامل نہیں ہوں گے جو آپ کے پیروکار نہیں ہوں گے۔

نیز جس طرح قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت میں صرف فرعون کی اولاد اور اس کے اہل خانہ فرعون کی آل میں شامل نہیں بلکہ اصلاً اس کے پیروکار شامل ہیں، اسی طرح درود ابراہیم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہی نہیں بلکہ وہ بھی شامل ہیں جو ان کے پیروکار ہیں۔

خلاصہ یہ کہ درود شریف میں جب آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا ہے تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد بھی شامل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ اور متبعین بھی شامل ہیں، اور متبعین میں تو سب سے پہلا مقام حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا ہے۔ یہی بات فقہ حنفی کے مشہور عالم اور فقیہ شیخ ابراہیم حلبی رحمہ اللہ نے بھی لکھی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ درود شریف میں صرف اہل بیت کا ذکر ہے صحابہ کا ذکر نہیں ہے بالکل غلط ہے، یہ کہنے والے کی کم علمی ہے یا پھر وہ اس کے ذریعے دوسروں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔

وأما السلام فنقل اللقاني عن الجویني أنہ في معنی الصلاة فلا یستعمل فيالغائب ولا یفرد بہ غیر الأنبیاء، فلا یقال علي علیہ السلام وسواء في ہذا الأحیاء والأموات․․․ والظاہر أن العلة في منع السلام ما قالہ النووي في علة منع الصلاة أن ذلک شعار أہل البدع ولأن ذلک مخصوص في لسان السلف بالأنبیاء علیہم السلام۔ (رد المحتار : ۱۰/ ۴۸۳-۴۸۴، کتاب الخنثی فصل في مسائل شتی)

وفي الخلاصۃ أیضًا : إن في الأجناس عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ: لا یصلي علی غیر الأنبیاء والملائکۃ، ومن صلی علی غیرہما لا علیٰ جہۃ التبعیۃ فہو غالٍ من الشیعۃ التي سمیت بالروافض، انتہی۔ ومفہومہ أن حکم السلام لیس کذٰلک ولعل وجہہ أن السلام تحیۃ أہل الإسلام، ولا فرق بین ’’السلام علیہ‘‘ و ’’علیہ السلام‘‘ إلا أن قولہ: عليٌ علیہ السلام من شعار أھل البدعۃ، فلا یستحسن فی مقام المرام۔ (شرح الفقہ الأکبر : ۱۶۶-۱۶۷)

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمُجْمِرِ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيَّ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ زَيْدٍ، هُوَ الَّذِي كَانَ أُرِيَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي مَجْلِسِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَهُ بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ: أَمَرَنَا اللهُ تَعَالَى أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى تَمَنَّيْنَا أَنَّهُ لَمْ يَسْأَلْهُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُولُوا اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَالسَّلَامُ كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ۔ (صحيح مسلم: كِتَابُ الصَّلَاةِ، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ بعْدَ التَّشهُّدِ)

(وعلی الہ) ای اھلہ والمراد من آمن منھم اجمعین۔ (حلبی کبیر: ٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 ربیع الاول 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم