سوال :
مکرمی جناب مفتی صاحب ! صورت مسئلہ یہ ہے کہ راقم الحمدللہ ایک مسجد کی امامت اور مکتب کی ذمہ داری سے وابستہ ہے۔ اور کافی عرصہ پہلے ایک صاحب نسبت عالم ربانی سے عملیات کی اجازت بھی حاصل ہے۔ استاد رحمۃاللہ علیہ نے اجازت دیتے وقت اس بات کی صراحت فرمادی تھی کہ عملیات کی اجرت لینا چاہو تو لے سکتے ہو شرعاً اس کی اجازت ہے، لیکن اگر بلا معاوضہ خدمت کرو تو بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے راقم گزشتہ بیس سالوں سے یہ خدمت للہ کررہا ہے اور اس عرصے میں کچھ بڑے بڑے کام بھی کئے جس میں روزانہ گھنٹوں درکار ہوتے تھے۔ اور آج بھی الحمد للہ چھوٹے چھوٹے کام سے خدمتِ خلق کا سلسلہ جاری ہے۔ البتہ بعض مجبوریوں اور کچھ مصلحتوں کے تحت کچھ ایسے کام (مثلاً زعفرانی تعویذ کم ازکم چالیس عدد لکھنا، یا آیاتِ قرآنی کی مدد سے گھر کی بندش وغیرہ کرنا) جس میں کافی وقت بھی درکار ہوتا ہے اور مشقت بھی۔ ایسے کاموں کا مناسب معاوضہ یا ہدیہ لینا چاہتا ہے، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ عموماً لوگ خود سے تو کچھ دینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ تو دریافت یہ کرنا ہے کہ بغیر جھوٹ بولے اور بغیر کسی دھوکہ دہی کے صاف اور واضح انداز میں کہہ کر معاوضہ یا ہدیہ لینا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ اگر ہاں تو کیا اس معاوضے کی وجہ سے منصبِ امامت میں شرعاً کوئی قباحت تو نہیں ہوگی؟
از راہ کرم شریعت کی روشنی میں جواب سے نوازیں۔
(المستفتی : ابو عبداللہ صغير الدین قاسمی)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : علاج ومعالجہ کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ عملیات اور تعویذات کا بھی ہے، البتہ اس میں درج ذیل شرائط کا لحاظ ضروری ہے۔
١) وہ تعویذ جو آیات قرآنیہ، اسمائے حسنی یا مسنون دعاؤں وغیرہ پرمشتمل ہو اور اس میں کوئی ایسا کلمہ نہ ہو جس میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگی گئی ہو ۔
٢) تعویذ میں لکھے ہوئے کلمات ایسے ہوں جن کے معنی معلوم ہوں۔
٣) تیسری شرط یہ ہے کہ عقیدہ یہ ہو کہ یہ تعویذ مؤثربالذات نہیں ہے، بلکہ اسکی حیثیت صرف دوا کی ہے، مطلب یہ عقیدہ یہ ہو کہ اگر اللہ تعالیٰ اس میں اثر ڈال دیں تو اس سے فائدہ ہوگا، ورنہ نہیں۔
درج بالا شرائط کے ملحوظ رکھتے ہوئے اگر تعویذ لکھی جائے تو اس کی اجرت لینا بھی بالاتفاق جائز ہے، کیونکہ یہ از قبیل علاج ہے، نہ کہ عبادت کی قبیل سے ہے جس پر اجرت کا لین دین جائز نہیں ہے۔
مسئولہ صورت میں بغیر کسی دھوکہ دہی کے آپ کا مناسب اجرت لینا بلکہ طے کرنا بھی شرعاً درست ہے، اور جب یہ عمل جائز ہے تو اس کی وجہ سے منصبِ امامت پر بھی کوئی قباحت لازم نہیں آئے گی۔ بشرطیکہ اور کوئی خلافِ شرع امر کا ارتکاب نہ ہو، مثلاً : اجنبیہ عورتوں سے اختلاط و بے پردگی وغیرہ۔
لِأَنَّ الْمُتَقَدِّمِينَ الْمَانِعِينَ الِاسْتِئْجَارَ مُطْلَقًا جَوَّزُوا الرُّقْيَةَ بِالْأُجْرَةِ وَلَوْ بِالْقُرْآنِ كَمَا ذَكَرَهُ الطَّحَاوِيُّ؛ لِأَنَّهَا لَيْسَتْ عِبَادَةً مَحْضَةً بَلْ مِنْ التَّدَاوِي۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات، ٦/٥٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 صفر المظفر 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں