سوال :
مفتی صاحب! بعض لوگ سلام میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے ساتھ ومغفرتہ وغیرہ کا اضافہ کرتے ہیں، ایسا کرنا کیسا ہے؟
(المستفتی : مسیب رشید خان، جنتور)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سلام کا سب سے کم درجہ یہ ہے کہ السلام علیکم کہا جائے جس پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا جائے تو بیس نیکیاں اور اگر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا جائے تو اس پر تیس نیکیاں ملتی ہیں، اور یہ سلام کا سب سے اعلی درجہ ہے، یہی حکم جواب کا بھی ہے، البتہ جواب کے بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ سلام کے مقابلہ میں بہتر ہو یعنی اگر کوئی صرف السلام علیکم کہے تو جواباً وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہنا اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کسی نے کہا تو جواباً وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنا افضل ہے۔ اور اگر کسی نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے الفاظ کے ساتھ سلام کیا تو جواب میں وبرکاتہ تک ہی کہا جائے، اس پر اضافہ کرنا مسنون نہیں ہے۔
ابوداؤد کی ایک روایت میں ہے :
پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا : السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ ومغفرتہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (ان کے لیے) چالیس نیکیاں ہیں اور فرمایا: فضیلت وثواب میں ایسے ہی اضافہ ہوتا ہے۔ (ابوداوٴد: رقم : ۵۱۹۶)
امام ابوداوٴد رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت اُس روایت کے بعد فوراً بعد ذکر کی ہے، جس میں تیس نیکیوں کے ملنے کا تذکرہ ہے، جس کے راوی حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ہیں، مذکورہ بالا حدیث کے راوی معاذ بن انس رضی اللہ عنہ ہیں، اِس میں ومغفرتہ کا اضافہ ہے، نیز اِس پر چالیس نیکیوں کے ملنے کا تذکرہ ہے۔ لیکن یہ روایت ضعيف ہے اور جن روایات میں برکاتہ کے بعد اضافہ سے منع کیا گیا ہے ان کے مقابلے میں ناقابلِ استدلال ہے۔ (1)
ممانعت والی روایات ملاحظہ فرمائیں :
بخاری شریف میں ہے :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! یہ جبرئیل تھے،تمہیں سلام کہہ رہے ہیں، میں نے کہا : وعلیہ السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اِس پر اضافہ کرنے لگیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سلام کی حد یہیں تک ہے، پھر آپ نے (مذکورہ آیت) پڑھی (اللہ کی رحمت اور برکات تم پر ہوں اے اہل بیت!)۔ (بخاری، رقم: ۳۰۴۵، بدء الخلق)
شعب الایمان میں ہے :
ایک آدمی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کویوں سلام کیا : السلام علیک ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ ومغفرتہ، تو ابن عمر نے اسے ڈانٹا اور کہا: حسبک إذا ا نتہیت إلی ”وبرکاتہ“ إلی ما قال اللّٰہ عزوجل یعنی تیرے لیے کافی ہے جب تو ”وبرکاتہ“ تک پہنچے،جو اللہ تعالیٰ نے کہا۔ (شعب الایمان : ۸۸۸۰)
امام مالک کی مؤطا میں ہے :
میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ کے پاس ایک یمنی شخص داخل ہوئے اور سلام یوں کیا: السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ، پھر مزید کچھ کلمات کہے، حضرت نے، جو اُن دنوں بینائی سے محروم ہوگئے تھے، کہا: کون ہے؟ لوگوں نے کہا: ایک یمنی صاحب ہیں جوآپ کے پاس آتے رہتے ہیں، چنانچہ لوگوں نے اُن کا تعارف کرایا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : سلام کی انتہا برکت تک ہے۔ (مؤطا مالک، رقم: ۱۷۲۸، باب العمل فی السلام)
درج بالا تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ سلام میں برکاتہ پر اکتفا کرنا سنت ہے، لہٰذا اسی پر عمل ہونا چاہیے، البتہ اگر کبھی کبھار کسی نے مغفرتہ وغیرہ کا اضافہ سنت سمجھے بغیر کرلیا تو گنجائش ہوگی، اسے بدعت نہیں کہا جائے گا۔
1) ولا یثبت ہذا الحدیث؛ فإن لہ ثلاث علل: إحداہا، أنہ من روایة أبي مرحوم عبد الرحیم بن میمون، ولا یُحتَجُّ بہ۔
الثانیة : أن فیہ أیضا سہل بن معاذ وہو أیضا کَذٰلک
الثالثة: أن سعید بن أبي مریم أحَدُ راویہ لم یَجزِم بالروایة؛ بل قال: أظن أني سمعت نافع بن یزید․(زاد المعاد: ۲/۴۱۷، فصل صیغة السلام)
ولا ینبغي أن یزاد علی البرکات، قال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما : لکل شيء منتہی، ومنتہی السلام البرکات کذا في المحیط۔ (الفتاویٰ الہندیہ : ۵/۳۲۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 صفر المظفر 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں