سوال :
حضرت مفتی صاحب ! سوال یہ ہیکہ بحالت مجبوری کورٹ سے جائیداد کی تقسیم کروانا کیسا ہے؟ صورت یہ ہیکہ زید بہن بھائیوں کو حصہ نہیں دے رہا تھا تو بہن بھائیوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ زید پر کیس کردیتے ہیں اب جب کورٹ وراثت تقسیم کرے گی تو بہن بھائیوں کو برابر برابر حصہ دے گی۔ تو کیا اسطرح کورٹ سے مسئلہ حل کروایا جاسکتا ہے؟
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : والد کے انتقال کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے مال میں قرآنِ کریم کے بیان کے مطابق بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کا آدھا حصہ ہوتا ہے۔ لہٰذا بیٹیوں کو ان کا حصہ دینا ضروری ہے، اگر کوئی بیٹا والد کے مال پر قبضہ کرلے اور بہنوں کو ان کو حصہ نہ دے تو وہ سخت گناہ گار ہوگا، اور اگر خدانخواستہ زندگی میں ان کا حصہ نہ دے تو بروزِ حشر اس سے ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے گا۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو درج ذیل حدیث شریف پڑھ کر اس سے عبرت حاصل کرنے ضرورت ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ آدمی ہے کہ جس کے پاس مال اسباب نہ ہو ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہوگا کہ جو نماز روزے زکوٰۃ وغیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دئے جائیں گے پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم)
جیسا کہ اوپر کی عبارت سے معلوم ہوا کہ والد کی میراث میں بیٹیوں کا بھی حصہ مقرر ہے، لہٰذا انہیں اپنے حصے کا مطالبہ کرنے کا شرعاً حق ہے۔ جس کے لیے سب سے پہلی کوشش تو یہ ہو کہ آپس میں ہی بیٹھ کر اس معاملے کو طے کرلیا جائے، اور اگر اس طرح معاملہ حل نہ ہوتو پھر محلہ یا شہری سطح پر باشعور دینی مزاج رکھنے والے افراد کے ذریعے مسئلہ حل کرانے کی کوشش کی جائے، اگر خدانخواستہ ان تمام صورتوں میں کامیابی نہ ملے تو پھر کورٹ جانے کی گنجائش ہوگی۔
البتہ مشاہدہ کی بات یہ ہے کہ کورٹ کا فیصلہ آنے میں عموماً سالوں لگ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے اصل وارثین تو اپنی زندگی کے آخری ایام میں پہنچ جاتے ہیں، بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کورٹ کے فیصلے کے انتظار میں یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی جوار رحمت میں پہنچ جاتے ہیں، پھر اس کے پیچھے ہزاروں روپے اور بہت سارا وقت بھی لگانا پڑتا ہے۔ لہٰذا زیادہ بہتر یہی ہے کہ کورٹ جانے سے احتیاط کیا جائے اور صبرو دعا کے ساتھ کوشش کی جاتی رہے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی راستہ نکال دیں، ورنہ کل قیامت کے دن تو آپ کا حصہ پورا پورا مل کر رہے گا جو بلاشبہ یہاں کے مال بہت بڑھ کر ہوگا۔
تاہم اگر کوئی کورٹ چلا جائے اور وہاں سے فیصلہ یہ ہو کہ بیٹی بیٹا دونوں کو برابر مال ملے گا تو پھر بیٹیوں کے لیے ان کے شرعی حصے سے زیادہ لینا جائز نہ ہوگا، بقیہ مال کا بھائیوں کو واپس کردینا ضروری ہوگا۔
لایجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ولا ولایتہ۔ (شامي : ٦/۳۰۰)
لایجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي : ۶/۱۰۶)
قال اللہ تعالیٰ : یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ، فَاِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ، وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۱)
ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ، ۹/۵۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 صفر المظفر 1442
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریں