سوال :
مفتی صاحب! جن فرض نمازوں کے بعد سنت مؤکدہ ہے کیا ان نمازوں میں دعا اور اذکار کی وجہ سے سنت مؤکدہ میں تاخیر کرنا مکروہ ہے؟ اور کیا اگر کسی نے طویل دعا مانگی یا فرض نماز کے بعد ذکر کرنے کے بعد سنت پڑھی تو سنت، بغیر سنت کے ادا ہوگی؟
(المستفتی : نبیل احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں نہیں ہیں، ان کے بعد دعائیں اور وظائف اور دینی گفتگو جتنی چاہیں لمبی کرسکتے ہیں، قابل غور بات ان نمازوں کے بارے میں ہے، جن کے بعد سنتیں ہوتی ہیں، تو احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ ان نمازوں کے بعد بھی حضرت سید الکونین علیہ الصلاۃ والسلام سے اذکار اور ادعیہ ماثور ومنقول ہیں، بعض اذکار اور دعائیں مختصر ثابت ہیں اور بعض طویل بھی ہیں، اسی طرح دعاؤں اور اذکار سے فراغت کے بعد آپ ﷺ گھر تشریف لے جاکر سنتیں پڑھا کرتے تھے، یہی صحابہ رضی اﷲ عنہم اور تابعین وتبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت ہے، اذکار اور وظائف کے بعد گھر جاکر سنتیں پڑھنا مسنون ہے، چاہے گھر مسجد سے دور ہی کیوں نہ ہو، لیکن آج کل کے زمانہ میں ہمتیں کمزور ہوگئیں، جس کی بنا پر مسجد سے باہر نکلنے کے بعد بجائے سنتوں میں مشغول ہونے کے دوسرے مشاغل میں مشغول ہوجانے کا زیادہ اندیشہ ہے، اس لئے عام لوگوں کو مسجد ہی میں سنتیں پڑھ لینی چاہئیں اور خواص جن سے سنتیں چھوٹ جانے کا خطرہ نہ ہو، ان کے لئے آج بھی یہی مسنون ہے کہ اپنی رہائش گاہ میں جاکر سنن ونوافل میں مشغول ہوجائیں، اب رہی لمبی لمبی دعائیں اور ذکر واذکار کے ذریعہ سے طویل فصل کرنا، پھر سنت پڑھنا تو اس میں دیکھا جائے کہ طویل فصل سے کیا مراد ہے؟ اگر بہت زیادہ فصل ہے جو دیکھنے والا خود سمجھ سکتا ہے، تو خلاف اولیٰ ہے۔ اور اگر بہت زیادہ فصل نہیں ہے، بلکہ چار پانچ منٹ کا فصل ہے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ (مستفاد: کفایت المفتی ۳/ ۳۶۵، ۳۰۷، جدید زکریا ۳/ ۳۵۳، ۳۵۴، زکریا مطول ۴/ ۷۹، فتاوی دارالعلوم ۴/ ۲۰۹، ۲۱۱)
فتاوی قاسمیہ میں ہے :
جن نمازوں کے بعد سنن ونوافل کا ثبوت ہے، ان فرض نمازوں کے بعد سنتوں سے پہلے تھوڑی دیر کے لئے اپنی جگہ بیٹھ کر ذکر ودعا اور اوراد وظائف پڑھنا حدیث سے ثابت ہے اور اس میں اتنی شدت نہیں ہے کہ فرض نماز سے فراغت کے بعد فوراً سنتیں پڑھی جائیں، بلکہ اوراد ووظائف کے ذریعہ فاصلہ کرنا حدیث شریف سے فضیلت کے ساتھ ثابت ہے۔
چنانچہ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مغرب کی فرض نماز کے بعد اپنی جگہ سے منتقل ہونے سے پہلے : ’’لا إلہ إلا اﷲ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد بیدہ الخیر یحیي ویمیت، وھو علی کل شيء قدیر‘‘ دس مرتبہ پڑھے گا، تو ہر مرتبہ پڑھنے کے مقابلہ میں دس نیکیاں لکھی جائیں گی، دس گناہ معاف ہوں گے، اور دس درجات بلند ہوں گے اور ہر ناگوار امور سے حفاظت میں رہے گا اور شیطان مردود کے مکر وفریب سے حفاظت میں رہے گا۔
اس کلمہ کو دس مرتبہ پڑھتے پڑھتے دوسرا آدمی آسانی کے ساتھ دو سنتیں پڑھ سکتا ہے۔ اور یہ حدیث شریف مغرب کی نماز کے بارے میں ہے، جس کے بعد سنتیں ہوتی ہیں، اسی طرح مسجد سے فرض پڑھنے کے بعد پیدل چل کر گھر پہنچنے کے ذریعہ سے فرض وسنت کے درمیان میں فاصلہ کرنا حدیث سے ثابت ہے، حالانکہ بہت سے صحابہ کرام کی رہائش مسجد نبوی سے کافی دوری پر تھی، جہاں تک پہنچنے میں دس دس، پندرہ پندرہ منٹ کی ضرورت پڑتی تھی، چنانچہ حدیث شریف سے یہ بھی ثابت ہے کہ ایک دفعہ حضور ﷺ نے ایسی فرض نماز ادا فرمائی کہ جس کے بعد سنتیں ہیں اور اس نماز میں حضرت ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما بھی موجود تھے۔ اور ایک شخص حضور ﷺ کے ساتھ تکبیر اولیٰ میں شریک ہوگئے، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں طرف سلام پھیرا تو وہ شخص سنتوں کے لئے کھڑے ہوگئے، تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس شخص کے مونڈھے پکڑ کر کھینچ کر بٹھا دیا اور فرمایا کہ تم سے پچھلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوگئیں کہ وہ فرض اور سنتوں کے درمیان میں فاصلہ نہیں کرتی تھیں۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا: اے عمر! بہت اچھا کیا۔
اسی طرح فرض نمازوں کے بعد سنتوں سے پہلے حضور ﷺ سے مختلف انداز کے مختلف اوراد ووظائف اور ذکر ودعا کا پڑھنا ثابت ہے، اس لئے اگر کوئی شخص اتنی دیر کے لئے بیٹھ کر کچھ وظائف پڑھتا ہے کہ جس میں دوسرا آدمی دو رکعت سنت پڑھ سکتا ہے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔
معلوم ہوا کہ فرض نماز کے بعد ذکر ودعا میں مشغولی کی وجہ سے عام طور پر لوگوں سے جو چار پانچ منٹ تک جو تاخیر ہوتی ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، اس سلسلے میں بعض لوگوں کی طرف سے جو شدت برتی جاتی یا ٹوکا جاتا ہے ان کا یہ عمل مزاج شریعت کے خلاف ہے۔ البتہ دس پندرہ منٹ تاخیر کرنا یا بلا ضرورت دنیاوی باتوں اور اعمال میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے سنت کا ثواب کا کم ہوجائے گا۔
عن عبدالرحمن بن غنم، عن النبي ﷺ أنہ قال: من قال قبل أن ینصرف ویثني رجلہ من صلاۃ المغرب والصبح: ’’لا إلہ إلا اﷲ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد بیدہ الخیر یحیي ویمیت، وہو علی کل شيء قدیر‘‘ عشر مرات، کتب لہ بکل واحدۃ عشر حسنات، ومحیت عنہ عشر سیئات، ورفع لہ عشر درجات، وکانت حرزا من کل مکروہ، وحرزا من الشیطان الرجیم۔ (مسند أحمد ۴/ ۲۲۷، رقم: ۱۸۱۵۳)
عن أبي أیوب رضي اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: من قال دبر صلاتہ إذا صلی: ’’لا إلہ إلا اﷲ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد وہو علی کل شيء قدیر‘‘ عشر مرات، کتب لہ بہن عشر حسنات، ومحی عنہ بہن عشر سیئات، ورفع لہ بہن عشر درجات، وکن لہ عتق عشر رقاب، وکن لہ حرسا من الشیطان حتی یمسي، ومن قالہن حین یمسي کان لہ مثل ذلک حتی یصبح۔ (صحیح ابن حبان، ذکر التی الذی یقول لمن قالہ بعد صلاۃ الغداۃ والمغرب … دارالفکر ۳/ ۱۸۵، رقم: ۲۰۲۱)
عن الأرزق بن قیس، قال: صلی بنا إمام لنا، یکني أبا رمثۃ، فقال: صلیت ہذہ الصلوۃ، أو مثل ہذہ الصلوۃ مع النبي ﷺ قال: وکان أبوبکر وعمر یقومان في الصف المقدم عن یمینہ، وکان رجل قد شہد التکبیرۃ الأولی من الصلاۃ، فصلی نبي اﷲ ﷺ، ثم سلم عن یمینہ، وعن یسارہ، حتی رأینا بیاض خدیہ، ثم انفتل کانفتال أبي رمثۃ، یعني نفسہ، فقام الرجل الذی أدرک معہ التکبیرۃ الأولی من الصلاۃ یشفع، فوثب إلیہ عمر، فأخذ بمنکبہ فہزہ، ثم قال: اجلس، فإنہ لم یہلک أہل الکتاب إلا أنہم لم یکن بین صلواتہم فصل، فرفع النبي ﷺ بصرہ، فقال: أصاب اﷲ بک یا ابن الخطاب۔ (أبوداؤد شریف، الصلاۃ، باب في الرجل یتطوع فی مکانہ الذی صلی فیما المکتوبۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۲۸۵، دارالسلام، ۱۰۰۷، السنن الکبری للبیہقي، کتاب الصلاۃ، باب الإمام یتحول عن مکانہ إذا اراد أن یتطوع في المسجد، دارالفکر جدید ۳/ ۲۱، رقم: ۳۱۲۹، المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۲۲/ ۲۸۴، رقم: ۷۲۸)
ولو تکلم بین السنۃ والفرض لایسقطہا، ولکن ینقص ثوابہا الخ۔ (التنویر مع الدر المختار / باب الوتر والنفل، ۲؍۴۶۱، زکریا)
قال الحلواني : لا بأس بالفصل بالأوراد، واختارہ الکمال۔ (الدر المختار / باب صفۃ الصلاۃ، ۲؍۲۴۷، زکریا)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 ربیع الاول 1442
*کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں ,*
جواب دیںحذف کریںدو نمازوں کے درمیان کتنا وقفہ ضروری ہے,
عوام میں جو یہ بات مشہور ہے کہ سوا گھنٹہ یا ستَّر منٹ کا ہونا ضروری ہے یہ کہاں تک درست ہے,
*مثلا زید* کی مسجد میں چار بجے عصر کی نماز ہیں اور پانچ بج کر پانچ منٹ پر مغرب کی نماز جس کے درمیان تقریبا ایک گھنٹے سے کم وقت بچتا ہے, اس کا کیا حکم ہے مدلل مفصل جواب عنایت فرمائے ,
بہت بہت مہربانی
بالکل فضول بات ہے۔ دو نمازوں کے درمیان وقفہ وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ ہر نماز کا اپنا وقت ہے۔ لہٰذا جس نماز کا جو وقت ہے اس وقت میں وہ نماز ادا کی جائے گی۔ نمازوں کے اوقات پر ہمارا ایک جواب لکھا ہوا ہے، آپ اس واٹس اپ نمبر 9270121798 پر رابطہ فرمائیں۔
حذف کریںواللہ تعالٰی اعلم