سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ بیٹے کے انتقال کے بعد بہو سسر کے لئے محرم رہے گی یا نہیں؟
(المستفتی : عبدالرحمن انجینئر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی آدمی سے نکاح ہوجانے کے بعد اس عورت کے لیے اس کے شوہر کے باپ دادا نصّ قطعی یعنی قرآن کریم رُو سے ہمیشہ کے لیے محرم بن جاتے ہیں۔ اب اس عورت کا ان سے نکاح کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، خواہ شوہر انتقال کرجائے یا طلاق دے دے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں شوہر کے انتقال کے بعد بھی بہو سسر کے لیے محرم ہے۔ البتہ اگر خدانخواستہ فتنہ اندیشہ ہوتو پھر اس سے پردہ لازم ہے۔
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّہٰتُکُمْ وَبَنٰتُکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ وَعَمّٰتُکُمْ وَخٰلٰتُکُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ وَاُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَاُمَّہٰتُ نِسَآئِکُمْ وَرَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِسَآئِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَحَلَآئِلُ اَبْنَآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلاَبِکُمْ ، وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْراً رَّحِیْماً۔ (سورۃ النساء : آیت ۲۳)
حرم تزوج أمہ وبنتہ وإن بعدتا ، وأختہ وبنتہا وبنت أخیہ وعمتہ وخالتہ وأم امرأتہ وبنتہا إن دخل بہا ، وامرأۃ أبیہ وابنہ وإن بعدا ، والکل رضاعًا والجمع بین الأختین ۔ (البحر الرائق : ۳/ ۹۲-۹۵)
والثالثة حليلة الابن وابن الابن وابن البنت وإن سفلوا دخل بها الابن أم لا ولا تحرم حليلة الابن المتبنى على الأب المتبني هكذا في محيط السرخسي۔ (الفتاویٰ الھندیۃ : ۲۷۴/۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 ربیع الاول 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں