سوال :
مونچھوں کے سلسلے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مونچھ کیسی رکھتے تھے؟ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیسی رکھتے تھے؟ برائے مہربانی بوضاحت اور مدلل جواب دیں۔
(المستفتی : محمد عادل، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احادیث مبارکہ میں مونچھوں کے کاٹنے کے بارے میں مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں مثلاً : قصّ، جزّ، احفاء وغیرہ۔۔ جن میں سے بعض الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ مونچھ قینچی، ٹریمر وغیرہ سے خوب پست کرلی جائے کہ مونڈنے کے قریب معلوم ہو اور بعض الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بالکل باریک نہ کاٹی جائے، بلکہ اس طرح کاٹی جائے کہ ہونٹوں کے اوپر کی سرخی نظر آنے لگے، لہٰذا دونوں طریقے مسنون ہیں، دونوں پر عمل کرسکتے ہیں۔ نیز استرے سے صاف کرنا اگرچہ جائز ہے لیکن بہتر نہیں۔ چالیس دنوں سے زیادہ مونچھ کا نہ تراشنا مکروہ تحریمی ہے۔ اور مستحب یہ ہے کہ ہر ہفتہ مونچھیں کاٹ لی جائیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مونچھیں بھی سنت کے مطابق چھوٹی ہواکرتی تھیں، البتہ روایات میں ملتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی مونچھوں کے بال دائیں بائیں سے کچھ بڑھے ہوئے تھے۔ ملحوظ رہنا چاہیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل انفرادی تھا اور یہ ان کی خصوصیت تھی، دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہ عمل نہیں تھا۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ مونچھوں کے اس حصے کو بھی تراش لیا جائے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مِنَ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۵۸۸۸)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ، وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ ". وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ، قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۵۸۹۲)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى۔ (صحیح البخاري، رقم : ۵۸۹۳)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَى، خَالِفُوا الْمَجُوسَ۔ (صحیح مسلم، رقم : ۲۶۰)
وَاخْتُلِفَ فِي الْمَسْنُونِ فِي الشَّارِبِ هَلْ هُوَ الْقَصُّ أَوْ الْحَلْقُ؟ وَالْمَذْهَبُ عِنْدَ بَعْضِ الْمُتَأَخِّرِينَ مِنْ مَشَايِخِنَا أَنَّهُ الْقَصُّ. قَالَ فِي الْبَدَائِعِ: وَهُوَ الصَّحِيحُ ۔۔۔۔ وَقَالَ فِي الْفَتْحِ: وَتَفْسِيرُ الْقَصِّ أَنْ يَنْقُصَ حَتَّى يَنْتَقِصَ عَنْ الْإِطَارِ، وَهُوَ بِكَسْرِ الْهَمْزَةِ: مُلْتَقَى الْجِلْدَةِ وَاللَّحْمِ مِنْ الشَّفَةِ۔ (شامی : ٢/٥٥٠)
حَدَّثَنَا أَبُو حَامِدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَبَلَةَ، ثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ السَّرَّاجُ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ، ثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيِّ، قَالَ : كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ طَوِيلًا جَسِيمًا أَصْلَعَ شَدِيدَ الصَّلَعِ، أَبْيَضَ شَدِيدَ حُمْرَةِ الْعَيْنَيْنِ، فِي عَارِضَيْهِ خِفَّةٌ سَبَلَتُهُ كَثِيرَةُ الشَّعْرِ، فِي أَطْرَافِهَا صُهْبَةٌ۔ (أبو نعيم الأصبهاني، معرفة الصحابة لأبي نعيم، ٤٥/١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 صفر المظفر 1442
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جزاکم اللہ خیرا کثیرا فی الدارین والحسن الجزا
Agar Hazrat Umar ki tarah rakhe to
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا الجزاء
جواب دیںحذف کریں💐💐💐