سوال :
مفتی صاحب! صفر کے مہینے میں آخری بدھ کی کیا حیثیت ہے؟ اس دن کچھ لوگ پکوان پکاتے ہیں اور سیر وتفریح کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے؟ مفصل مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : جاوید احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ماہِ صفر المظفر کے آخری بدھ کو مسلمانوں کا ایک طبقہ مختلف قسم کے پکوان بناتا ہے اور سیر وتفریح کی غرض سے شہر کے باہر کھیتوں اور باغوں میں نکل جاتا ہے۔ ان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ ماہ صفر کے آخری بدھ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بیماری سے افاقہ ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چہل قدمی کی تھی، جس کی خوشی میں یہ امور انجام دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے، ذیل میں چند معتبر سیرت کی کتابوں سے اس واقعہ کو نقل کیا جارہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
۲۶ صفر المظفر ١١ ہجری پیر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو رومیوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور ۲۷ صفر منگل کو حضرت اسامہ بن زید ؓ امیر لشکر مقرر کئے گئے، ۲۸ صفر بدھ کے دن اگرچہ آپ بیمار ہوچکے تھے لیکن اپنے ہاتھ سے نشان تیار کرکے حضرت اسامہ ؓ کو دیا۔ ابھی کوچ کی نوبت نہ آئی تھی کہ آپ کی بیماری نے شدت اختیار کرلی، اسی دن وقت عشاء سے آپ علیہ السلام نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے پر مقرر فرمایا۔ (شمس التواریخ : ۲/ ۱۰۰۹۔۱۰۰۸، طبقات ابن سعد : ٣٧٧/٢، البدایہ والنہایہ : ٢٢٤/٥)
ماضی قریب کے جید عالم اور مؤرخ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :
صفر ۱۱ ہجری میں آدھی رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں جو عام مسلمانوں کا قبرستان تھا، تشریف لے گئے، وہاں سے واپس تشریف لائے تو مزاج ناساز ہوا، یہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا اور روز چہار شنبہ تھا۔ (سیرة النبی : ١١٥/٢)
اسی کے حاشیہ میں علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے :
اس لیے تیرہ ۱۳ دن مدتِ علالت صحیح ہے، علالت کے پانچ دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری ازواج کے حجروں میں بسر فرمائے، اس حساب سے علالت کا آغاز چہار شنبہ (بدھ) سے ہوتا ہے۔
مفسر قرآن حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
ماہِ صفر کے اخیر عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار شب کو اُٹھے اور اپنے غلام ابو مویہبہ کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اہلِ بقیع کے لیے استغفار کروں، وہاں سے واپس تشریف لائے تو دفعةً مزاج ناساز ہو گیا، سر درد اور بخار کی شکایت پیدا ہو گئی۔ یہ ام الموٴمنین میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کی باری کا دن تھا اور بدھ کا روز تھا۔ (سیرت المصطفیٰ : ٣/١٥٦)
صاحب معارف القرآن حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
۲۸/ صفر، ۱۱ ہجری چہار شنبہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان بقیعِ غرقد میں تشریف لے جا کر اہلِ قبور کے لیے دعائے مغفرت کی اور فرمایا : اے اہلِ مقابرتمہیں اپنا حال اور قبروں کا قیام مبارک ہو، کیوں کہ اب دنیا میں تاریک فتنے ٹوٹ پڑے ہیں، وہاں سے تشریف لائے تو سر میں درد تھا اور پھر بخار ہو گیا اور بخار صحیح روایات کے مطابق تیرہ روز تک متواتر رہا اور اسی حالت میں وفات ہوگئی۔ (سیرت خاتم الانبیاء : ١٢٦)
درج بالاحوالہ جات سے ثابت ہوگیا کہ ۲۸ صفر بروز بدھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیماری میں زیادتی ہوئی تھی اور یہ دن ماہ صفر کا آخری بدھ تھا، یہ دن مسلمانوں کے لئے خوشی کا تو بالکل بھی نہیں ہے، البتہ یہود و نصاریٰ اور دشمنان اسلام کے لئے خوشی کا موقع ہوسکتا ہے۔
احمد رضا خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں :
آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں، نہ اس دن صحت یابی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی ثبوت ہے بلکہ مرض اقدس جس میں وفات مبارکہ ہوئی اس کی ابتدا اسی دن سے بتلائی جاتی ہے۔ (احکام شریعت : ۲/۵۰)
لہٰذا اس دن کو تہوار کا دن سمجھنا اور خوشیاں منانا، مختلف قسم کے پکوان بنانا، سیر وتفریح کرنا اور اسے ثواب کی چیز سمجھنا قطعاً ناجائز اور گناہ ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ عمل کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے محسن اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کی بیماری کے دن خوشیاں منائیں، زیب وزینت کرکے کھیتوں اور باغوں میں سیر وتفریح کے لئے جائیں اور قسم قسم کے کھانے مٹھائیاں اور میوے وغیرہ کھائیں اور کھلائیں، کیا ہم میں سے کوئی اپنے، ماں باپ بھائی بہن، رشتہ دار یا عزیز دوست کے مرض میں مبتلا ہونے کی تاریخ کو خوشی منائے گا؟ اچھے اچھے اور لذیذ کھانوں کا اہتمام کرے گا؟ گھر میں ہمارا کوئی عزیز جاں کنی کی حالت میں ہو تو ہم سیر وتفریح کو جائیں گے؟ جب ہم اپنے ایک عزیز دوست اور رشتہ دار کی بیماری کے دن ایسا نہیں کر سکتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی علالت کے آغاز کے دن کیسے کر سکتے ہیں؟ کچھ بعید نہیں ہے کہ کسی دشمن اور منافق نے اس دن خوشی منائی ہوگی اور مشہور کردیا ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس دن صحت ملی اور آپ سبزہ پرتشریف لے گئے۔
اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ ماہ صفر کے آخری بدھ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بیماری سے افاقہ ہوا تھا تب بھی اس دن خصوصیت کے ساتھ مذکورہ بالا امور انجام دینا جائز نہیں ہے، بلکہ یہ بدعت اور گمراہی ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تابعین تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ میں سے کسی سے بھی اس دن ان امور کا انجام دینا ثابت نہیں ہے۔
عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہٰذا ما لیس منہ فہو رد۔ (صحیح البخاري، الصلح / باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود رقم : ۲۶۹۷)
عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد : ۲؍۶۳۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 صفر المظفر 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں