سوال :
ہندہ کی حیض کی مدت ہمیشہ پانچ دنوں کی ہوتی ہے، اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ اور اس نے پانچویں دن غسل کرکے پاکی حاصل کی، لیکن پھر سے اسے آٹھویں دن خون آگیا۔ مسئلہ یہ ہیکہ ہندہ نے اس دوران پانچ سے آٹھ کے درمیان جماع کیا ہے۔ ایسی صورت میں ہندہ کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟
(المستفتی : ابو سعید، بوئیسر)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جبکہ عادت کے مطابق پانچ دن پر خون بند ہوگیا تھا اس کے بعد غسل کرکے پاکی حاصل کرلی گئی تھی تو اس کے بعد صحبت کرنا جائز ہوگیا تھا۔ لہٰذا اس صورت میں ہندہ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اکثر مدتِ حیض یعنی دس دن کے اندر اندر دوبارہ آٹھویں دن حیض آگیا تو یہ سب زمانہ حیض ہی کا شمار ہوگا، اور اس دوران جو نمازیں پڑھی گئی وہ معتبر نہ ہوں گی، اور نہ ہی ان کی قضاء لازم ہوگی۔ البتہ اگر خون دس دن سے تجاوز کرجائے تو پھر وہ اس کی عادت کی طرف لوٹائی جائے گی، یعنی پانچ دن حیض کے ہوں گے، اور بقیہ ایام پاکی کے شمار ہوں گے۔ لہٰذا پانچ دن کے بعد جو نمازیں پڑھ لی گئی ہیں وہ معتبر ہوں گی، اور جو رہ گئی ہیں ان کی قضاء کی جائے گی۔
اعلم أنہ إذا انقطع دم الحائض لأقل من عشرۃ وکان لتمام عادتہا فإنہ لا یحل وطؤہا إلا بعد الاغتسال أو التیمم بشرطہ کما مر، لأنہا صارت طاہرۃ حقیقۃ أوبعد أن تصیر الصلوۃ دینا فی ذمتہا، وذٰلک بأن ینقطع ویمضی علیہا أدنی وقت صلوۃ من اٰخرہ، وہو قدر ما یسعالغسل واللبس والتحریمۃ الخ، فإذا انقطع قبل الظہر مثلاً أو فی أول وقتہ لا یحل وطؤہا حتی یدخل وقت العصر الخ۔ مع أنہ لا عبرۃ للوقت المہمل ولا لأول وقت الصلوۃ۔ (شامي : ۱؍۴۹۱)
فإن لم یجاوز العشرۃ فالطہر والدم کلاہما حیض۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۳۷)
أما المعتادۃ فما زاد علی عادتہا وتجاوز العشرۃ فی الحیض والأربعین فی النفاس یکون استحاضۃ۔ (شامي : ۱/۴۷۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 محرم الحرام 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں