پیر، 21 ستمبر، 2020

فتوی اور دارالقضاء کی قانونی حیثیت اورفتوی نویسی سے متعلق قانونی رہنمائی

فتوی اور دارالقضاء کی قانونی حیثیت
اورفتوی نویسی سے متعلق قانونی رہنمائی

ازقلم : ایڈوکیٹ مومن مصدّق احمد
(ممبئی ہائی کورٹ)
8080876069

سنہ  ۲۰۱۴ میں Vishwa Lochan Madan v. Union of India   نامی کیس میں سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ کے سامنے رٹ پٹیشن کے ذریعے ایک سوال آیا کہ کیا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکے زیر نگرانی ملک بھر میں جاری دارالقضاۃ یانظام قضاۃ جو مسلمانوں کے آپسی معاملات کو باہمی مفاہمت سے سلجھانے کا کام کرتے ہیں وہ ہندوستانی عدلیہ کے متوازی ہیں؟
اس سوال کے جواب میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ کسی قانون کی رو سے جاری کردہ عدالت کو ہی اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی معاملہ کا تصفیہ کرے اور فیصلہ صادر کرے  اور وہ فیصلے قانون کے ذریعے نافذالعمل ہوں اور عوام کے ذریعے مانیں جائیں۔ناماننے پر قانون کے ذریعے نتائج یعنی سزا و جرمانہ کا اطلاق ہو۔عدلیہ کے مذکورہ بالا بنیادی عوامل دارالقضاۃ، فتوی یا نظام قضاۃ میں نہیں پائے جاتے۔ اس لئے یہ جمہوری عدلیہ کے متوازی نہیں گردانے جاسکتے۔ عدلیہ نے مزید کہا کہ کسی بھی قاضی یا مفتی کویہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنے فتوی یا رائے کا اطلاق کرسکے۔ مغلیہ دور اور برطانوی اقتدار میں بھلے ہی فتوی کی کوئی حیثیت رہی ہو لیکن آزاد ہندوستان میں آئین ہند کی رو سے اس کے اطلاق کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ کوئی بھی شخص فتوی کو نظر انداز کر سکتا ہے اور کسی بھی فتوی کو عدلیہ تک لانے کی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی بزور طاقت فتوی کے نفاذکی کوشش کرتا ہے تو یہ غیر قانونی ہے۔
اسی فیصلے میں سپریم کورٹ نے فتوی کے بارے میں کہا کہ ۔۔۔فتوی محض ایک رائے ہے، جو ماہرین شریعت کے ذریعے دیا جانا چاہئے۔ یہ کوئی فرمان نہیں۔ کوئی عدلیہ، حکومت یا فرد فتوی کا پابند نہیںہے۔ آئین ہندمیں فتوی کو کوئی جواز حاصل نہیں ہے۔ لیکن ان باتوں کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ فتوی اور دارالقضاۃ غیر قانونی ہوتے ہیں۔ فتوی مذہبی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ خوف خدا سے معمور انسان فتوی پر عمل پیرا ہوتا ہے اور فتوی کو نظر انداز کرنا شدید ذہنی کوفت و اذیت کا باعث بنتا ہے۔ جب تک فتوی کی وجہ سے کسی فرد کے قانونی حقوق کی پامالی نہیں ہوتی تب تک فتوی کسی پریشانی کا باعث نہیں ہے۔ 

عدالت عظمی نے اس فیصلے میں ایک اہم بات کہی کہ وہ امید کرتے  ہیں کہ جہاں افتاء کسی فرقے سے متعلق ہوں یا جو معاملات کسی گروہ سے متعلق ہوں اورمستفتی کوئی تیسرا فرد ہو جس کا اصل مدعا سے براہ راست تعلق ناہوتو ایسے معاملات میں فتوی دیتے ہوئی بہت احتیاط برتی جانی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے اعتراف کیا کہ فتوی میں ایک بڑی تباہی برپا کرنے کی طاقت موجود ہے اس لئے یہ احتیاطی الفاظ عدالت کے ذریعے استعمال کئے جارہے ہیں۔ اخیر میں عدالت عظمی نے کہا کہ کوئی بھی دارالقضاۃ، شخص یا ادارہ، چاہے وہ کسی بھی نام سے ہو، وہ کسی فرد کے قانونی حقوق، حالت یا ذمہ داریوں سے متعلق اسی وقت فتوی دے جب متعلقہ فرد خود استفتاء کرے۔

دہلی ہائی کورٹ نے Masroor Ahmed v. State (NCT of Delhi) & Another 2007  کیس میں کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شریعت اور اس کے مختلف مکاتب فکر کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص کسی متنازعہ مسئلے پر کیسے آگے بڑھے گا؟ اس کے جواب میں کورٹ نے بتایا کہ ہر شخص مسائل سے متعلق اپنے مکتب فکر کے مفتی سے رجوع کرے گا۔ عدالت نے اس فیصلہ میں فتوی اور قضاۃ کے فرق کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ فتوی صرف ایک رائے ہے جو مفتی اپنے مکتب فکر کے مطابق بتاتا ہے جبکہ قضاۃ تنازعات میں فیصلہ کرنے سے متعلق ہوتا ہے۔
ہندوستانی عدلیہ نے متواتر فتوی کی قانونی حیثیت سے متعلق فیصلے سنائے ہیں جن کا لب لباب مندرجہ بالا تمہیدی فیصلوں میں مذکور ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ہندوستانی قوانین کے مطابق فتوی ایک ماہر شریعت کی رائے ہے جس پر عمل کرنا یا اسے نظر انداز کرنا مستفتی کے اختیار میں ہے۔ مزید یہ کہ فتوی اسی وقت جاری کیا جائے جب متعلقہ فرد بذریعہ استفتاء مفتی سے رجوع ہو۔ ہر مفتی کو کسی جماعت ، فرقہ یا بڑے گروہ سے متعلق استفتاء پر حد درجہ احتیاط برتنی چاہئے اور مستفتی کی نیت کی جانچ کرنا چاہئے ورنہ اس سے بڑی تباہی کا اندیشہ ہوتا ہے اور فتوی جاری کرنے والا قانونی گرفت میں آسکتا ہے۔

دستور ہند میں اظہار رائے کی آزادی

دستورکے آرٹیکل ۱۹ کے ضمن میں ہر ہندوستانی شہری کو اظہار رائے اور اظہار خیال کی آزادی کا حق حاصل ہے۔  تاہم یہ حق  مطلق نہیں ہے۔حکومت کو ملک کی خود مختاری، سا لمیت، ریاست کی سلامتی، غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات، شائستگی، اخلاقیات اور عوامی نظم و نسق کے مفاد میںنیزہتک عزت، کسی کو اکسانا اورکسی جرم پر آمادہ کرنے سے روک تھام کے لئے اس حق پر مناسب پابندیاں عائد کرنے کے لئے قانون وضع کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

آرٹیکل ۱۹ کی شق ۲ کسی بھی شخص کو ایسے بیان دینے سے روکتی ہے جو دوسرے کی ساکھ کو بدنام کرتی ہے یا نظم و نسق بربادکرتی ہے یا اخلاقیات کو خراب کرتی ہے۔ ہتک عزت پینل کوڈ کی دفعات ۴۹۹ اور ۵۰۰ کے مطابق جرم ہے جس کے تحت ۲ سال تک کی سزااور جرمانہ یا دونوں ہوسکتا ہے۔ 

دستور ہند میں بنیادی اختیارات کے زمرے میں شامل اظہار رائے اور اظہار خیال کی آزادی کا حق ایک دفاعی حق ہے جو ہر شہری کے لئے مفید ہے۔ جن افراد پر اظہار رائے اور اظہار خیال سے متعلق معاملات درج کئے جاتے ہیں ، آرٹیکل ۱۹ ایسے افراد کو پناہ دیتا ہے۔ اگر ملزم اپنے بیانات سے متعلق ا پنی نیک نیت اور جائز توقعات ثابت کردے تو وہ آرٹیکل ۱۹کی پناہ میں آجاتا ہے اور بری کردیا جاتا ہے۔

فتوی نویسی اورتعزیرات ہند (Indian Penal Code)

فتوی نویسی گذشتہ عدالتی فیصلوں کے تناظر میں اظہار رائے یا اظہار خیال میں شمار کی جائے گی کیونکہ فتوی مفتی کی اپنے مکتب فکر کے شرعی احکامات کی تشریح ہوتی ہے ۔ فتوی سے بعض اوقات کسی فرد یا فرقہ کے جذبات مجروح ہوجاتے ہیں۔بسا اوقات عوامی تفرقہ ہو جاتا ہے۔ کبھی ہتک عزت کے معاملات ہوجاتے ہیں اور کبھی نوبت مارپیٹ، جھگڑے فساد تک پہنچ جاتی ہے۔

تعزیرات ہند یعنی انڈین پینل کوڈ ہندوستان کا ضابطہ قانون جرائم ہے۔ پینل کوڈ ایک ایسا جامع قانون ہے جس کا مقصد مجرمانہ قانون کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا ہے۔ انڈین پینل کوڈمیں ۱۳ زمروں میں کل ۵۱۱دفعات، ان کے ضمنی پہلو اور سزائیںسلسلہ واردرج ہیں۔کسی بھی طرح کی مجرمانہ سرگرمی سرزد ہونے پر پولس انڈین پینل کوڈکی مختلف دفعات جرم کے مطابق عائد کرتی ہیں اور ایف آئی آریا شکایت کا اندراج ہوتا ہے۔ انڈین پینل کوڈ کے علاوہ جن جرائم سے متعلق اسپیشل ایکٹ موجود ہیں، پولس ان دفعات کو بھی عائد کرسکتی ہے۔

فتوی  نویسی کی وجہ سے قصداً سہواً کیا کیا جرائم سرزدہوسکتے ہیں، ان کا اطلاق و سزائیں اور احتیاطی تدابیر کا علم نہایت ضروری ہے تاکہ علماء کرام اور مفتیان عظام بیجا قانونی گرفت میں نا پڑیں۔

1) مذہب ،ذات، نسل،جائے پیدائش اور زبان کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کو فروغ دینااور ہم آہنگی مجروح کرنا۔ (دفعہ ۱۵۳  الف)

اس دفعہ کی رو سے جو شخص الفاظ کے ذریعے، تحریری یا تقریری یا اشاروں سے یا کسی بھی طریق سے ، مذہب، ذات، نسل، فرقہ ،جائے پیدائش اور زبان کی بنیاد پر  علاقائی گروہ، مذہبی گروہ، ذات یا برادری کے مابین  بد نظمی، دشمنی کے احساسات، نفرت یا ناپائیداری پیدا کرے گا، یا جو شخص ایسی سرگرمی انجام دے یا ایسی سرگرمی کا انتظام کرے جس میں شامل افراد کا مقصدکسی مخصوص گروہ، یا مذہبی فرقہ یا ذات کے افراد کو ڈرانا یاان کے خلاف شرانگیزی کرنا ہواسے تین سال کی سزا یا جرمانہ یا دونوں ہوسکتا ہے۔

اس فرد جرم کو ثابت کرنے کے لئے تین جزویات کا ہونا لازمی ہے۔

الف : مذہب ، نسل، مقام پیدائش، رہائش، زبان، ذات ،برادری  کی بنیاد پر مابین دشمنی کو فروغ دینے کا کام۔

ب : مختلف گروہوں یا ذاتوں کے مابین ہم آہنگی مجروح کرنے  نیز امن و سکون غارت کرنے کے لئے اقدامات کرنا۔

پ : کسی بھی مذہی ، نسلی،  ذات ،برادری  یا علاقائی گروہ کے افراد میں خوف و ہراس پیدا کرنایا مجرمانہ طاقت  یا تشدد کے ذریعے عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنا۔

2) قصداً کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنا۔ (دفعہ ۲۹۵،الف)

جو شخص کسی بھی دانستہ اور بد نیت منشاء کے ساتھ الفاظ کے ذریعے (تحریری یا تقریری)یا اشارۃ کسی طبقے کے مذہبی جذبات بھڑکائے یا کسی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرے، اسے تین سال کی سزااور جرمانہ یا دونوں ہوسکتا ہے۔

اس دفعہ کا مقصد ہے کہ ایسی تمام سرگرمیاں جس کی وجہ سے کسی طبقے یا فرقہ کے مذہب یا مذہبی عقائد مجروح ہوتے ہوں ان پر قدغن لگانا اور مرتکب کو سزادینا ہے تاکہ سماج میں امن و سکون غارت نہ ہو۔اس دفعہ کے تحت سزا اسی وقت ہوتی ہے جب ملزم قصداً، دانستہ طورپر ایسے الفاظ لکھے،بولے یا اشارۃ  اہانت کا ارتکاب کرے۔ اگر کسی کے مذہبی جذبات مشتعل کرنا مقصو دنا ہو تو یہ جرم ثابت نہیں ہوسکتا۔

اس فرد جرم کو ثابت کرنے کے لئے مندرجہ ذیل جزویات کا ہونا لازمی ہے۔

الف : ملزم کو ہندوستان کے کسی بھی طبقے یا فرقے کے افراد کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین یا توہین کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔
ب : مذکورہ توہین شہریوں کے مذکورہ طبقہ یا فرقہ کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے اور نیت کے ساتھ ہونی چاہئے۔
پ : مذکورہ توہین الفاظ کے ذریعے ہونی چاہئے ، یا تو بولے یا لکھے ہوئے یا اشاروں کے ذریعے یا کسی اور طرح سے۔
ت : اس دفعہ کے تحت جرم نا قابل ضمانت ہوتا ہے۔
ث : اس دفعہ کے تحت پولس بناء وارنٹ کے گرفتاری کرسکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے Mahindra Singh Dhoni v. yerraguntla Shyamsundar and Another 2017 نامی کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مذہب یا شہریوں کے ایک طبقہ یا فرقہ کے عقائد کی توہین کرنے کی ہر کوشش کو تعزیرات ہند کی دفعہ ۲۹۵، الف کے تحت سزانہیں دی جائے گی۔ بلکہ صرف ایسی کوششوں کو اس دفعہ کے تحت سزا دی جائے گی مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے دانستہ اور بد نیت منشاء سے منسلک ہیں۔کسی مذہب یا فرقے کے عقائد و جذبات کی توہین اگر غیر دانستہ یا لاپرواہی کے ساتھ یا بد نیتی پر مبنی ارادے کے بغیر ہوگئی ہو تو ایسی حرکتیں دفعہ ۲۹۵، الف کے زمرہ میں نہیں آسکتی۔

3) کسی مذہبی تقریب یا مذہبی مجلس میں خلل اندازی کرنا۔ (دفعہ ۲۹۶)

جو شخص قصدا کسی مذہبی تقریب یا مجلس یا فریضہ کے انعقاد میں خلل اندازی کرے گا اسے ایک سال کی سزا یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتا ہے۔
تعزیرات ہند کی دفعہ ۲۹۶  کے تحت اس جرم میں خلل اندازی  یا رخنہ ڈالنے کا طریقہ کار نہیں بتایا گیا ہے۔یعنی اس میں کسی بھی طریقہ کاربشمول الفاظ کے استعمال ،جس کے نتیجہ میں مذکورہ بالا رخنہ اندازی پائی جائے گی وہ قابل سزا مانا جائے گا۔

4) حکومت سے بغاوت۔ (دفعہ ۱۲۴، الف)
جو شخص الفاظ کے ذریعے، بول کر یا لکھ کر یا اشاروں سے یا کسی بھی طریقے سے حکومت کے خلاف نفرت یا توہین کی کوشش کرے ،  یا ایسی حرکتو ں کو بڑھاوادے یا دینے کی کوشش کرے، اسے تین سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا اور جرمانہ ہوسکتا ہے۔

تعزیرات ہند کی یہ دفعہ خطرناک دفعات میں سے ایک ہے کیونکہ کسی بھی طرح کی سرگرمی کو اس دفعہ کے تحت لایا جاسکتاہے۔ اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ بسا اوقات حکومتیں اس دفعہ کو اپنے مفادات کے تحت بھی استعمال کرتی ہیں۔
تعزیرات ہند سے فتوی نویسی سے متعلق یہ چند عمومی دفعات کا ذکر کیا گیا ہے۔تعزیرات ہند کی دفعات کا اطلاق اور جرم ثابت ہونے میں سب سے اہم نقطہ کو ذہن نشین ہونا چاہئے وہ یہ کہ جب تک جرم کے جزویات کا ارتکاب نا ہوا ہو، اس وقت تک جرم ثابت نہیں کیا جا سکتا۔جزویات میں سب سے اہم نیت اور منشاء ہوتی ہے۔ کسی بھی جرم میں اگر بد نیت اور ارادہ شامل نا ہو تو وہ جرم عدالت کے روبرو ثابت نہیں کیا جا سکتا اور نا عدالت ان کے علاوہ دلائل کو قبول کرتی ہے۔

علماء و مفتیان کے لئے احتیاطی تدابیر

1) فتوی اسی وقت جاری کیا جائے جب متعلقہ فرد جس کے حقوق و احکامات سے متعلق استفتاء ہو وہ  خودبذریعہ استفتاء مفتی سے رجوع ہو۔

2)استفتاء ہمیشہ تحریری شکل میں ہو جس میں مستفتی کی شناخت (رہائش)وغیرہ درج ہو۔

3) ایسے استفتاء جن کا تعلق بالعموم جماعت، فرقہ یامذہبی گروہ سے ہو، ایسے فتوی میں حد درجہ احتیاط برتنی چاہئے اور مستفتی کی نیت کی جانچ کرنا چاہئے کہ آیا اس کی نیت صاف ہے یا فتنہ کا اندیشہ ہے۔

4) فتوی میں کسی فرقہ یا جماعت کے افراد کی شناخت سے اجتناب کیا جائے۔

5) ایسے فتاوے جن میں سوال یا جواب کا تعلق کسی فرقہ، طبقہ یا جماعت سے ہو، اس فتوی کے شروع یا اخیر میں ایک عبارت
لکھی جائے کہ
فتوی صرف مستفتی کے استفتاء پر لکھا گیا ہے۔ فتوی دینی و شرعی احکامات سے متعلق رہنمائی جو مختلف مسالک ومذاہب کی بنیاد پر مختلف ہوسکتی ہے۔ اس پر عمل کرنا یا نا کرنا قاری کے اختیار
میں ہے۔ فتوی قانونی طورپر قابل اطلاق نہیں، لیکن دین و شریعت پر ایمان رکھنے والوں کے لئے اسے نظر انداز کرنا گناہ کا باعث ہوگا۔
 
6) اگر کسی استفتاء سے متعلق یہ گمان ہوکہ اس سے کوئی فتنے کا اندیشہ ہے یا سماج دشمن عناصرفتوی کو اپنے مفاد کے لئے استعما ل کرسکتے ہیں، تو ایسے جوابات میں حتی الامکان اپنی نیت کی وضاحت کردے۔

مندرجہ بالا تجاویز کا دھیان رکھتے ہوئے فتوی نویسی کی جائے گی تو ان شاء اللہ علماء و مفتیان قانونی گرفت میں نہیں آئیں گے۔ اگر ان سب تجاویز کا خاطر خواہ خیال کرنے کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے غلط طریقوں سے یا زبردستی کوئی گرفت ہوتی ہے تو ان تجاویز پر عمل پیرا ہونے کا فائدہ عدالت کے روبرو ضرور ہوگا۔

ختم شد

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم