سوال :
ایک روایت بہت زیادہ بیان کی جاتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں نماز کی حالت میں ہوں اور میری والدہ مجھے آواز دے تو میں نماز توڑ کر اس کی حکم کی تعمیل کروں
کیونکہ بعض لوگ جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو والدین کچھ کام کیلئے حکم کرتے ہیں تو بچے کہتے ہیں کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے بچے کے نہ ماننے پر اس روایت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سب سے پہلے یہ جان لیں کہ سوال نامہ میں مذکور روایت "اگر میں اپنے والدین، یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو پاتا، جب کہ میں عشاء کی نمازشروع کرکے سورہ فاتحہ پڑھ چکا ہوتا، اور وہ مجھے پکارتے : اے محمد، تو میں جواب میں لبیک (میں حاضر ہوں) کہتا "۔
اگرچہ عوام بلکہ خواص کے ایک طبقہ میں بھی مشہور ہے، اور یہ روایت "کنز العمال" اور"شعب الایمان" میں مذکور ہے، لیکن محدثین نے اس روایت کی سند کے بعض راویوں پر سخت کلام کیا ہے، اور علامہ ابن جوزی نے اسے موضوعات میں شمار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے بھی اس روایت سے استدلال نہیں کیا ہے، اور والدین کے بلانے پر نماز توڑنے سے متعلق درج ذیل موقف بیان فرمایا ہے۔
اگر والدین یا کوئی اورکسی اچانک آفت یا ناقابلِ برداشت تکلیف کی وجہ سے مدد کے لیے پکاریں تو اس صورت میں نماز توڑ دینا ضروری ہے، خواہ نماز نفل ہو یا فرض۔
البتہ اگر ایسی سنگین صورتِ حال درپیش نہ ہو اور والدین کونفل نماز میں مشغول ہونے کا علم بھی ہو تو اس صورت میں اگر پکاریں تو نماز نہیں توڑی جائے گی۔ اور اگر انہیں نماز میں مشغول ہونے کا علم نہ ہوتو نفل نماز توڑکر ان کی آواز کا جواب دے سکتے ہیں، اور فرض نماز اس صورت میں بھی نہیں توڑی جائے گی۔
پہلے پیرا گراف میں مذکور تفصیلات سے معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں بیان کی گئی روایت معتبر نہیں ہے، لہٰذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اور بطور حوالہ اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ رہی بات نماز کے وقت والدین کا حکم بجا لانے کی تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ کام نماز کے بعد ہوسکتا ہوتو پھر والدین کو بھی چاہیے کہ نماز کے وقت کوئی کام نہ کہیں، اگر خدانخواستہ والدین میں دینداری نہ ہوتو بچوں کو چاہیے کہ اچھے انداز میں کہہ دیں کہ نماز کے بعد کام کردوں گا۔ اور نماز کے بعد وہ کام کردیں۔
عن طلق بن علي، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا وَأَنَا فِي صَلاةِ الْعِشَاءِ، وَقَدْ قَرَأْتُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ يُنَادِينِي: يَا مُحَمَّدُ؛ لأَجْبُتُه لَبَّيْكَ . شعب الإيمان (10/ 284) ، مصنفات أبي جعفر ابن البختري (ص: 210) ، الموضوعات لابن الجوزي (3/ 85)
وفي الدر: ولو دعا أحد أبویہ فی الفرض، لایجیبہ إلا أن یستغیث بہ، وفی النفل إن علم أنہ في الصلاۃ فدعاہ لایجیبہ، وإلا أجابہ، وقال الشامي: قولہ: لایجیبہ عبارۃ التجنیس عن الطحاوی: لابأس أن لایجیبہ، قال ح : وہي تقتضی أن الإجابۃ أفضل، تأمل۔ (درمختار مع الشامي ۲؍ ۵۰۴-۵۰۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 صفر المظفر 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں