سوال :
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وحاملان شرع مبین بیچ اس مسئلہ کے کہ عبدالرحمن صاحب کا انتقال 18/20 سال پیشتر ہو چکا ہے۔
عبدالرحمن صاحب کے انتقال کے وقت ان کی ایک بیوہ رفیقہ ایک لڑکا زید اور تین لڑکیاں ہندہ، فریدہ اور زاہدہ حیات تھے۔ کچھ عرصہ بعد ان کی بیوہ رفیقہ کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔
عبدالرحمن صاحب کی مال ومتاع مندرجہ ذیل تھی :
الف : ایک مکان
ب : چند زیورات
ج : کچھ پیسے
ح : استعمال کے برتن فرنیچر
عبدالرحمن صاحب کے انتقال کے بعد سے آج تک ان کی وراثت کی تقسیم عمل میں نہیں آئی ہے۔ اس دوران بڑی لڑکی ہندہ بھی فوت ہوچکی ہے۔ ہندہ کو دو بیٹیاں تھیں، بد قسمتی سے چھوٹی لڑکی فرزانہ نے ایک غیر مسلم سے شادی کرلی اور مرتد ہوگئی ہے۔ دوسری بیٹی رخسانہ ملازمت کرتی ہے اور اسلام سے منحرف ہے اور مرتد ہے۔ اس سے اسلام اور رسول پاک کے تعلق سے پوچھا گیا تو اس نے الله کے وجود سے انکار کیا ہے اور اسلام صحیح طریقہ زندگی ہے اس عقیدہ پر اس کا ایمان نہیں ہے۔
موجودہ صورت حال میں عبدالرحمن صاحب کی جائداد کس طرح تقسیم کی جائے؟ برائے کرم اسلامی شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ عین نوازش ہوگی، آپ کا ممنون کرم۔
(المستفتی : شیخ فرقان احمد، پونے)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ سے سب سے پہلے اگر قرض ہوتو وہ ادا کیا جائے گا، اس کے بعد وصیت ہوتو وہ تہائی مال سے پوری کی جائے گی، اس کے بعد جو بچے گا وہ وارثین میں تقسيم ہوگا۔
مرحوم کے وارثین میں چونکہ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں، لہٰذا مرحوم کا ترکہ انکے درمیان للذکر مثل حظ الانثیین (ایک بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر) کے تحت تقسیم ہوگا۔
کل مال کے پانچ حصے کیے جائیں گے دو حصہ بیٹے کو ملے گا اور ایک ایک حصہ بیٹیوں کو ملے گا، ایک بیٹی ہندہ کا چونکہ انتقال ہوچکا ہے، لہٰذا اس کا حصہ اس کے وارثین میں تقسیم ہوگا۔
ہندہ کی چونکہ یہی دو بیٹیاں ہیں اور دونوں معاذ اللہ مرتد ہوچکی ہیں تو یہ دونوں حدیث شریف کے بیان کے مطابق اپنی مسلمان والدہ کے ترکہ سے محروم ہوں گی، لہٰذا اگر ہندہ کے شوہر اس کی موت کے وقت حیات ہوں تو انہیں اولاد کی موجودگی میں ہندہ کے کل مال کا چوتھائی ملے گا۔ بقیہ مال ہندہ کے ایک بھائی اور دو بہنوں میں للذكر مثل حظ الانثیین کے تحت تقسیم ہوگا، یعنی بقیہ مال کے چار حصے کیے جائیں دو حصہ بھائی زید کو ایک ایک حصہ بہنوں کو ملے گا۔
نوٹ : ملحوظ رہے کہ ہندہ کی چھوٹی بیٹی فرزانہ نے اگر صرف غیرمسلم سے شادی کی ہے اور اس کا مذہب قبول نہیں کیا ہے، بلکہ وہ اسلامی عقائد اور تعلیمات سے وابستہ ہے تو اس پر مرتد کا حکم نہیں لگے گا، لہٰذا اس صورت میں وہ اپنی والدہ کی میراث کی حقدار ہوگی، البتہ غیرمسلم سے نکاح کی وجہ سے وہ سنگین گناہ کی مرتکب ہوئی ہے اور اس کا غیرمسلم کے ساتھ رہنا زنا میں شمار ہوگا۔
قال اللہ تعالیٰ : یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ، فَاِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ، وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۱)
عن أسامۃ بن زید رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم۔ (صحیح البخاري، کتاب الفرائض / باب لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم رقم : ۶۷۶۴)
المانع من الإرث … أربعۃ… واختلاف الدینین۔ (السراجي ۷)
قال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ : وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُنَّ وَلَدٌ، فَاِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوْصِیْنَ بِہَا ۔ (النساء، جزء آیت: ۱۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 محرم الحرام 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں