سوال :
کووڈ-۱۹ کے انجنکشنز قانوناً پازیٹو رپورٹ کے ریکارڈ کے ساتھ انکی اصل قیمت سے دئے جارہے ہیں، لیکن بہت سارے ہسپتال والے یا دیگر افراد مریض کے پاس رپورٹ نا ہونے کے سبب اسکی بلیک مارکیٹنگ کررہے ہیں اور مریض کو بحالت مجبوری مہنگی قیمت پہ خریدنا پڑ رہا ہے۔ جیسے 5400 کا انجیکشن کچھ لوگ 9000 کا دے رہے ہیں۔ انجیکشن اکٹیمرا جس کی قیمت 48000 ہے اسے ایک لاکھ کا بیچ رہے ہیں۔ ایسا کرنا کیسا ہے؟
(المستفتی : مبین احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ مطہرہ نے تجارت میں نفع کوئی خاص مقدار متعین نہیں کی ہے۔ بلکہ اسے بیچنے اور خریدنے والے کی رضامندی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یعنی دونوں باہمی رضامندی سے جس قیمت پر معاملہ طے کرلیں یہ ان کے لیے شرعاً جائز اور درست ہوگا۔
معلوم ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں باہمی رضامندی سے اگر ان انجیکشن کو خریدا اور بیچا جائے تو یہ رقم فروخت کرنے والے کے لیے حلال تو ہوجائے گی، البتہ ایسے لوگوں کو درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ لی جائے کہ اگر کسی چیز کی قیمت کم ہوتو اسے دوگنے دام میں فروخت کرنے میں کوئی خاص حرج نہیں۔ مثلاً ایک روپے کی چیز اگر کوئی دوگنا قیمت پر فروخت کرے تو اس میں خریدنے والوں پر بار نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کوئی چیز ایک ہزار کی ہو اور اسے دوگنے داموں پر فروخت کیا جائے تو بلاشبہ یہ لوگوں کے لیے اذیت کا سبب بنے گا۔
نیز ایسی ضرورت کی اشیاء جن کی لوگوں کو سخت ضرورت ہو جن کے نہ ملنے پر انسانی جان کے تلف ہوجانے کا اندیشہ ہو (مثلاً ضروری دوائیں وغیرہ) تو پھر ایسی اشیاء کا مصنوعی شارٹیج کرنا اور لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر اسے انتہائی مہنگے داموں میں فروخت کرنا قانوناً، اخلاقاً اور شرعاً بھی جُرم ہے۔ جو شعبۂ طب جیسے باوقار اور محترم پیشے سے جُڑے ہوئے افراد کے لیے مزید شرم کا باعث ہے۔
ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ غریبوں اور ضرورت مندوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر آپ وقتی طور پر مال تو کمالیں گے، لیکن ان کے دلوں سے نکلنے والی آہ اور ٹیس سے آپ کی زندگی کا چین وسکون غارت ہوجائے گا۔ اور اس طرح کمایا ہوا مال برکت سے خالی ہوگا۔
بخاری شریف میں ہے :
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک دوسرے پر مہربانی کرنے اور دوستی و شفقت میں مومنوں کو ایک جسم کی طرح دیکھو گے کہ جسم کے ایک حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بیداری اور بخار میں اس کا شریک ہو جاتا ہے۔
یعنی کامل مومن تو وہ ہے جو اپنے بھائیوں کے دُکھ درد کو سمجھے اور بقدر استطاعت اس کے درد کو دور کرنے کی کوشش کرے، اور ان کی دعاؤں کا حقدار بن کر اپنی دنیا وآخرت سنوار لے۔ ناکہ ان کی مصیبتوں اور تکالیف کا فائدہ اٹھاکر اپنا دنیاوی منافع حاصل کرے۔ یہ ایک غیر انسانی اور غیر شرعی فعل ہے جس سے بچنا بہت ضروری ہے۔ نیز اتنا ہی نفع کمایا جائے جو ضرورت مندوں کے لیے مزید اذیت کا سبب نہ بنے۔
البیع ہو مبادلۃ المال بالمال بالتراضي بطریق التجارۃ۔ (حاشیۃ الہدایۃ : ٣/۱۸)
الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقا للقيمة الحقيقية أو ناقصا عنها أو زائدا عليها۔ (درر الحكام في شرح مجلة الأحكام : ١/١٢٤)
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زَکَرِيَّائُ عَنْ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَی الْمُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَکَی عُضْوًا تَدَاعَی لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّی۔(بخاری)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 صفر المظفر 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں