سوال :
مفتی صاحب! غسل کن کن صورتوں میں واجب ہوتا ہے؟ تمام صورتیں وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیں، اور غسل کا طریقہ بھی بیان فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مکی، مالیگاؤں)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : غسل تین وجوہات کی بنا پر واجب ہوتا ہے۔
1) جنابت : اس کی مختلف صورتیں ہیں جو درج ذیل ہیں۔
◼️ اگر منی اپنے مستقر سے شہوت کے ساتھ جُدا ہوجائے تو بعد میں اس کا خروج (اگرچہ بلاشہوت ہو) پھر بھی اس کی وجہ سے غسل واجب ہوتا ہے، مثلاً منی نکلتے وقت مرد نے ہاتھ سے اپنے عضو خاص کو ایسا پکڑا کہ شہوت کی حالت میں منی باہر نہیں نکل پائی بلکہ جوش ٹھنڈا ہونے کے بعد نکلی، تب بھی راجح قول کے مطابق غسل واجب ہوجائے گا۔
◼️ احتلام یعنی نیند کی حالت میں انزال ہونا یہ مرد وعورت دونوں کو ہوتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے غسل واجب ہوجاتا ہے۔
◼️ التقاء ختانین یعنی مرد وعورت کی شرمگاہوں کا اس طرح ملنا کہ مرد کے عضو کا حشفہ (سپاری) عورت کی شرمگاہ میں چھپ جائے۔ اس سے بھی غسل واجب ہوجاتا ہے۔
2) حیض (ماہواری) کا بند ہوجانا۔
3) نفاس یعنی بچے کی ولادت کے بعد آنے والے خون کا بند ہوجانا۔
أسباب الغسل ثلا ثۃٌ : الجنابۃ والحیض والنفاس۔ وفی مختار الفتاویٰ: المراد بقولہ والحیض والنفاس انقطاعہما۔ (فتاویٰ تاترخانیہ : ۱؍۲۷۸)
وفرض الغسل عند خروج منی منفصل عن مقرہ بشہوۃ وإن لم یخرج من رأس الذکر بہا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱؍۱۴)
🔮 پاکی کے لیے کیے جانے والے تمام غسل، غسلِ جنابت، غسلِ حیض و نفاس کے احکامات ایک ہی ہیں۔ اور اس میں مرد و عورت کے لیے کوئی خاص تفصیل بھی نہیں ہے۔ البتہ جو اہم باتیں ہیں انہیں لکھ دیا گیا ہے۔
🟢 غسل کے فرائض
◼️ کلی کرنا، روزہ نہ ہوتو غرارہ کرلینا بہتر ہے۔ غسل میں اصل فرض کلی کرنا ہی ہے۔
◼️ ناک کے نرم حصے تک پانی چڑھانا
◼️ پورے بدن پر اس طرح پانی بہانا کہ ایک بال برابر بھی جگہ خشک نہ رہے۔
🟢 غسل کا مسنون طریقہ
الف : أولاً نیت حاضر کرکے بسم اللہ پڑھ کر دونوں ہاتھ دھوئے۔
ب : پھر شرم گاہ دھوئے خواہ اس پر نجاست ہو یا نہ ہو۔
ج : پھر مکمل وضو کرے۔
د : پھر داہنے کندھے پر سے تین مرتبہ پانی بہائے اس کے بعد بائیں کندھے پر تین مرتبہ پانی ڈالے اس کے بعد سر پر تین مرتبہ پانی ڈالے۔
ہ : رگڑکر سارے اعضاء کو دھوئے۔
و : قبلہ رخ غسل نہ کرے۔
ز : ضرورت سے زائد پانی نہ بہائے۔
ح : تنہائی میں غسل کرے۔
ط : اگر غسل خانہ میں پانی جمع ہوجاتا ہو تو غسل کے بعد وہاں سے ہٹ کر اپنے پیر پاک کرے۔ (مستفاد: عالمگیری ۱؍۱۴)
◼️ اگر کسی عورت کی چوٹی پہلے سے بندھی ہوئی ہو اور اسے غسلِ جنابت کی ضرورت پیش آجائے تو اس پر چوٹی کھولنا لازم نہیں، بلکہ بالوں کی جڑ تک پانی پہنچانا کافی ہے، لیکن اگر بال پہلے ہی سے کھلے ہوئے ہوں تو اب تمام بالوں کو دھونا لازم ہوگا۔ البتہ اگر کسی مرد نے شوقیہ لمبے بال رکھ کر چوٹی باندھ رکھی ہو تو غسلِ جنابت کے لئے اس چوٹی کو کھولنا واجب ہوگا، محض بالوں کی جڑوں کو تر کرنا کافی نہ ہوگا۔
◼️ عورت کی شرمگاہ کے دو حصے ہیں ایک بیرونی حصہ جو مستطیل شکل کا ہے اس کے بعد کچھ گہرائی میں جاکر گول سوراخ ہے، اس گولائی سے اوپر کے حصہ کو فرج خارج اور اندرونی حصے کو فرج داخل کہا جاتا ہے، فرض غسل میں فرج خارج کا دھونا فرض ہے، یعنی گول سوراخ تک پانی پہنچانا ضروری ہے، اس کے بغیر غسل صحیح نہ ہوگا، البتہ فرج داخل کے اندر پانی پہنچانا ضروری نہیں۔
وکفی بلّ أصل ضفیرتہا أی شعر المرأۃ المضفور للحرج، أما المنقوض فیفرض غسل کلہ اتفاقاً۔ (درمختار) قال الشامی بحثاً: وتمام تحقیق ہٰذہ الأقوال فی الحلیۃ وحال فیہا اٰخراً إلی ترجیح القول الثانی وہو ظاہر المتون۔ (شامی بیروت ۱؍۲۵۷-۲۵۸، زکریا ۱؍۲۸۶-۲۸۷)
لا یکفی بلّ ضفیرتہ فینقضہا وجوباً۔ (شامی بیروت ۱؍۲۵۸، زکریا ۱؍۲۸۸/کتاب المسائل)
قال في التنوير ويجب غسل سرة وشارب وحاجب ولحية وفرج خارج ، وفي الشرح لأنه كالفم لا داخل لأنه باطن۔ (رد المحتار : ١/١٤٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ذی الحجہ 1441
ماشاء اللہ بہت خوب مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا و احسن الجزا
ماشاء اللہ بہت بہترین اللہ تعالیٰ قبول فرمائے
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریں