سوال :
محترم جناب مفتی صاحب! پینٹ فولڈ کرکے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ کیا ایسی صورت میں نماز ہوجائے گی؟ نیز بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر پائجامہ یا پینٹ ٹخنوں سے نیچے ہوں تو اوپر سے لپیٹنا چاہیے، نیچے سے فولڈ کرنے سے نماز نہیں ہوتی۔
(المستفتی : افضال احمد ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث میں ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے کی ممانعت اور وعید وارد ہوئی ہے۔
بخاری شریف کی روایت میں ہے :
رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۔" از قسم ازار (یعنی پائجامہ وغیرہ ) کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔
مطلب یہ کہ ٹخنوں سے نیچے پیر کے جتنے حصہ پر تہبند وغیرہ لٹکا ہوا ہوگا وہ پورا حصہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔
ابوداؤد شریف کی روایت میں ہے :
نبی کریم ﷺ نے فرمایا تین آدمی وہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز نہ ان سے گفتگو فرمائیں گے نہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھیں گے اور نہ انہیں گناہوں سے پاک صاف کریں گے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ وہ کون لوگ ہیں یا رسول اللہ ﷺ وہ تو بیشک ناکام ونامراد ہوگئے. حضور اکرم ﷺ نے تین مرتبہ ان الفاظ کا اعادہ فرمایا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ کون لوگ ہیں بیشک وہ تو ناکام ونامراد ہوگئے؟ فرمایا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا۔ احسان کرکے جتانے والے اور جھوٹی وناجائز قسمیں کھا کر سامان فروخت کرنے والا۔
ابوداؤد اور ترمذی شریف میں ہے :
حضرت ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ " ایک مؤمن کے تہبند و پائجامہ کی سب سے بہتر صورت تو یہ ہے کہ وہ آدھی پنڈلیوں تک ہو اور آدھی پنڈلیوں سے ٹخنوں تک (کے درمیان ) ہونے میں (بھی) کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اس (ٹخنے ) سے نیچے جو حصہ (لٹکا ہوا) ہوگا وہ دوزخ کی آگ میں لے جائے گا ۔ حضرت ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ الفاظ تین بار فرمائے ۔ اور (پھر فرمایا کہ ) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو (رحمت و عنایت کی نظر سے ) نہیں دیکھے گا جو غرور و تکبر سے اپنے تہبند و پائجامہ کو (ٹخنوں سے) نیچے لٹکائے گا۔
درج بالا روایات سے معلوم ہوا کہ عزیمت یعنی اولیٰ درجہ یہ ہے کہ ازار یعنی تہبند و پائجامہ کو نصف پنڈلی تک رکھا جائے کیونکہ آپ ﷺ اپنا تہبند نصف پنڈلی ہی تک رکھتے تھے، البتہ رخصت یعنی اجازت و آسانی کا درجہ ٹخنوں تک ہے کہ تہبند و پائجامے کو زیادہ سے زیادہ ٹخنوں تک رکھا جا سکتا ہے۔ اورتکبر کی وجہ سے پاجامہ پینٹ وغیرہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانا ناجائز اور حرام ہے اور ایسا شخص حدیث شریف میں مذکور وعید کا مستحق ہوگا، اسی طرح بلاتکبر بھی ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ چنانچہ اگر ٹخنوں سے نیچے لباس ہونے کی حالت میں نماز پڑھ لی جائے تو نماز بھی مکروہ ہوتی ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے تو یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا پائجامہ وغیرہ اس طرح سِلا ہو کہ ہمیشہ اور ہر حالت میں ٹخنوں کے اوپر رہے۔ لیکن اگر کسی نے اس کا خیال نہیں کیا اور اس کا پینٹ یا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے ہے تو نماز کے وقت اسے اوپر سے موڑ کر اوپر کرلے یا پھر پائنچے موڑکر بھی ٹخنوں سے اوپر کرسکتا ہے، اس طرح کرلینے سے کراہت ختم ہوجاتی ہے، اور نماز بھی مکروہ نہیں ہوگی۔
پائنچے موڑنے کو مکروہ تحریمی قرار دیکر اس سے نماز کو واجب الاعادہ قرار دینا اور بخاری شریف کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت : عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال : أُمِرْتُ أنْ أسْجُدَ عَلیٰ سَبْعَةٍ، لاَ أکُفُّ شَعْراً وَلاَ ثَوْباً۔
حضرت عبداللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں، اور نہ بالوں کو سمیٹوں اور نہ کپڑوں کو۔ (بخاری، کتاب الصلاة، باب لا یکف ثوبه فی الصلاة، حدیث نمبر : 816) سے پائنچہ موڑنے کی ممانعت پہ استدلال کرنا ناواقفیت پر مبنی ہے، کیونکہ اس حدیث میں "کف ثوب" (یعنی کپڑے سمیٹنے) سے مراد "ازار" کے علاوہ قمیص اور چادر وغیرہ سمیٹنا ہے۔
”وَالْحِکْمَةُ فِيْ ذٰلِکَ أَنَّه اذَا رَفَعَ ثَوْبَه وَشَعْرَہ عَنْ مُبَاشَرَةِ الْأَرْضِ أشْبَه الْمُتَکَبِّرَ“ (فتح الباری : ۲/۳۷۷، کتاب الصلوة، باب السجود علی سبعة اعظم)
اور حکمت اس میں یہ ہے کہ جب وہ اپنے کپڑے اور بالوں کو مٹی لگنے کے ڈر سے اٹھائے گا، تو اس میں متکبرین کے ساتھ مشابہت پیدا ہوگی۔
بلکہ بخاری شریف کی ایک روایت سے پائنچے موڑنے کی تائید ہوتی ہے :
عن أبي جُحَیفة قال: ․․․․ فرأیتُ رسولَ اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم خَرَجَ في حُلَّةٍ مُشَمِّراً، فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ إلی الْعَنَزَةِ۔
ترجمہ : حضرت ابو جحیفة فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے لباس میں تشریف لائے، جس میں ازار کو نیچے سے اٹھائے ہوئے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ (بخاری، کتاب الصلوة، باب التشمر فی الثیاب، حدیث نمبر:5786)
اس حدیث میں لفظ ”مُشَمِّراً“ تشمیر الثوب سے ماخوذ ہے جس کے معنی آستین چڑھانا، پائینچے موڑنا، پاجامہ ٹخنوں سے اوپر کرنا ہیں۔ علامہ ابن حجر نے اس کی تشریح ”رَفَعُ أسْفَلِ الثَّوْبِ“ (کپڑے کے سب سے نچلے حصے کو اٹھانا) سے کی ہے۔ (فتح الباری : ۲/۳۱۵)
احادیث وفقہی نصوص ومتون میں جہاں کہیں بھی "کفّ ثوب" کی ممانعت وارد ہوئی ہے اس سے مراد "ازار" کے علاوہ قمیص اور چادر وغیرہ ہے۔ پائنچے موڑنا "کَفِّ ثوب" کی ممانعت کے تحت داخل نہیں ہے۔
عن أبي ہریرۃؓ، عن النبي صلی الله علیہ وسلم قال: ما أسفل من الکعبین من الإزارفي النار۔ (صحیح البخاري، کتاب الصلاۃ، رقم :۵۵۵۹)
عن أبي ذرؓ، عن النبي صلی الله علیہ وسلم، أنہ قال: ثلاثۃ لایکلمہم الله ولاینظر إلیہم یوم القیامۃ، ولایزکیہم ولہم عذاب ألیم، قلت من ہم یا رسول الله فقد خابوا وخسروا فأعادہا ثلثا، قلت من ہم یا رسول الله فقد خابوا وخسروا، قال : المسبل، والمنان، والمنفق سلعۃ بالحلف الکاذب، أو الفاجر۔ (ابوداؤد شریف، کتاب اللباس،باب ماجاء في الاسبال الإزار، رقم :۴۰۸۷)
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : إزرة المؤمن إلى أنصاف ساقيه لا جناح عليه فيما بينه وبين الكعبين ما أسفل من ذلك ففي النار، قال ذلك ثلاث مرات، ولا ينظر الله يوم القيامة إلى من جر إزاره بطرا۔ (رواه أبو داود وابن ماجه)
وینبغي أن یکون الإزار فوق الکعبین۔ (ہندیۃ، کتاب الکراہۃ، الباب التاسع في اللبس، ۵/۳۳۳)
مستفاد : ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے کی ممنوع شکلیں، از مفتی شکیل منصور قاسمی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 ذی الحجہ 1441
ماشاءاللہ۔ اللہ آپ کے علم میں برکت دے۔
جواب دیںحذف کریںآمین ثم آمین
حذف کریںکاش کے یہ بات بریلوی بھی سمجھ لیتا۔
جواب دیںحذف کریں🌹🌹🌹
جواب دیںحذف کریں,جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیر
جواب دیںحذف کریں