منگل، 25 اگست، 2020

آگرہ روڈ کی تعمیر یا مسئلۂ کشمیر؟

محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! شہرِ عزیز مالیگاؤں میں مسائل کی کمی نہیں ہے۔ یہاں تعلیم سے لے کر روزگار تک، بنیادی سہولیات سے لے کر تفریحی انتظامات تک۔ ہر شعبہ میں آپ کو مسائل ہی مسائل نظر آئیں گے؟ پھر بھی یہاں کی جفاکش عوام صبر وشکر کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک طبقہ ان کے صبر کا حد سے زیادہ غلط فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ اور آخری حد تک عوام کا استحصال کیا جارہا ہے۔

محترم قارئین ! گزشتہ چند سالوں سے آگرہ روڈ جیسی انتہائی اہم اور مصروف ترین شاہراہ کی تعمیر کا مسئلہ شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ مسئلہ گویا مسئلہ کشمیر بنا ہوا ہے کہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کی تعمیر کی ذمہ داری کس کی ہے؟ کمشنر یا میئر؟ ایم ایل اے یا کارپوریٹرس؟ یا پھر ٹھیکہ داروں کی غفلت کی وجہ سے یہ روڈ اپنی بدحالی کے دن پورے نہیں کرپارہی ہے؟ ہمیں تو بس اتنا معلوم ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والے اس شہر میں جبکہ انتظامیہ میں بھی اکثر تعداد مسلمانوں کی ہی ہے، جس کی وجہ سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس روڈ کی درستی کی ذمہ داری بھی مسلمانوں میں سے ہی کسی کی ہے، اس کے باوجود یہ روڈ اپنی خستہ اور بدحالی میں اپنی مثال آپ بنی ہوئی ہے۔ جبکہ احادیث میں آیا ہے کہ راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹادیا جائے اور خود دوسروں کو تکلیف دینے سے حتی الامکان بچا جائے، دوسروں کو تکلیف پہنچانا ناجائز اور حرام کام ہے، جس کا خمیازہ دنیا وآخرت میں ضرور بھگتنا پڑے گا۔ ہم اور آپ اندازہ بھی نہیں کرسکتے کہ اس روڈ کی تعمیر کے ذمہ داران اپنی غفلت کی وجہ سے اپنے نامۂ اعمال میں کتنے گناہ جمع کررہے۔ اور روزآنہ ہزاروں راہگیروں کی آہوں اور بد دعاؤں کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے۔

ابھی چار پانچ دن پہلے کی بات ہے ہمارے دوست اور مسجد حُرمت بی کے امام حافظ ابو رضوان اس روڈ کے قاتل گڑھوں کی زد میں آکر سخت زخمی ہوئے ہیں، اس طرح کے واقعات اس روڈ پر روزآنہ ہورہے ہیں، اس کے باوجود انتظامیہ کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔

کچھ دِن پہلے اس روڈ پر لطیفوں کا ٹرینڈ چلا تھا، جس کا اثر یہ ہوا تھا کہ اس روڈ کے کچھ حصوں کی تعمیر کرکے عوام کو لالی پاپ تھمادیا گیا۔ پھر وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔

پرسوں دیکھنے میں آیا کہ عصر بعد اس روڈ کے ایک حصے کی درستی کے نام پر ڈامر کی چِپّی لگانے کا کام چل رہا تھا جو انتہائی ناقص اور غیرمعیاری تھا، بلکہ اسے سڑا ہوا کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا، جسے دیکھ کر خون کھول اٹھا، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے عوام کے جذبات سے کھیلا جارہا ہے اور ان کے احتجاج کا بھیانک مذاق اڑایا جارہا ہے۔ اس تحریر کے وجود میں آنے کا سبب یہی واقعہ ہے۔

آخر کون ہے جو اس روڈ کی مکمل اور بہتر تعمیر کروائے گا؟ عوام کی نگاہیں اس مسیحا کی تلاش میں ہیں۔

یا خود عوام کو اس کے لیے کوئی سخت قدم اُٹھانا؟

اپنے تاثرات اچھے انداز میں کمنٹ باکس میں لکھیں۔

13 تبصرے:

  1. آگرہ روڈ، کارپوریشن چاہے تو وہ بھی اپنا ایک بجٹ مخصوص کرکے بنا سکتی ہے. ایم ایل اے چاہے تو گورنمنٹ سے فنڈ حاصل کر کے بنوا سکتے ہیں. حال ہی میں سننے میں آیا کہ شہر کے جاری ایم ایل اے صاحب نے تقریباً 11 کروڑ روپے فنڈ کی منظوری حاصل کر لی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پیسہ کب آتا ہے. کتنا لگتا ہے اور روڈ کب تک بنتی ہے؟

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت ہی اچھے موضوع پر قلم کشائی کی ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

    سمجھ میں نہیں آتا کہ جب بجٹ وغیرہ سب پاس ہوگیا ہے تو آخر کیا وجہ ہے تاخیر کی؟
    پہلے جو برسراقتدار تھا اس نے بھی کام مکمل نہیں کرایا حالانکہ ان کی ہار ایک سبب یہ بھی ہے اور موجودہ برسراقتدار پارٹی بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے
    کہاجاتا ہے کہ مالیگاؤں بھیونڈی کے بعد پورے مہاراشٹر میں سب سے زیادہ بجٹ رکھنے والا شہر ہے
    مگر شہر کی کو ایک سڑک بھی قابل دید اور قابل داد نہیں ہے
    آخر ایسا کیوں؟؟؟
    یہ عہدے داران کی خامی ہے یا پھر عوام کی بے حسی؟

    جواب دیںحذف کریں
  3. Dil ki baat kah di Mufti Sahab mera roz ka rasta yahi hai

    جواب دیںحذف کریں
  4. Pahle iska fund pass hua manzoori mili uske baad kaam shuru hua lekin leaders ki na-ahli aur aawam ki behissi ki wajah se ye ek na khatm hone wala masla ban gaya

    جواب دیںحذف کریں
  5. غالباً بیس سالوں سے آگرہ ر ڈ کی درستگی کے لیے مسلسل فنڈ جاری ہو رہا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ کام آج تک تکمیل کو نہیں پہنچا لیڈروں کو میں کوئی دوش نہیں دی سکتا کیوں کہ اس کے لیے عوام ہی ذمہ دار ہیں
    وجہ اس کی یہ ہے کہ جب کبھی کسی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا ہوتا ہے تو ہم بجائے اس کا حل نکالنے کہ دوسرے کے سروں پر ٹھیکرا پھوڑتے ہیں چاہے وہ آتی کرمن کا معاملہ ہوچکاہے غیر ضروری اسپیڈ بریکروں کا معاملہ ہوچکاہے روڈ کی خرابی ہم اپنے آپ میں مست ہیں کسی کی تکلیف سے ہمیں کیا لینا؟
    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو خیال جس کو خود اپنی حالت کے بدلنے کا

    جواب دیںحذف کریں
  6. میں لے اے مسلم
    مءر مسلم
    سینٹرل کے سب کارپوریٹر مسلم
    اور شھر کی ھالت آوٹر کی جھوپڈپٹی سے بھی بد تر
    کب تک کھاے گے ۔
    اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے

    جواب دیںحذف کریں
  7. Hum sirf Modi government ke liye hi ahetejaj karna jante hai kya
    Hume apne shaher ko sudharne ke liye bhi ahetejaj jaisa qadam uthan padega kisi political party ke support ke begair

    جواب دیںحذف کریں
  8. بہت عمدہ مفتی صاحب
    جس طرح آگرہ روڈ کا معاملہ ہے ٹھیک اسی طرح شہر کی ہر چھوٹی بڑی سڑک اور گلی کا معاملہ ہے عوام پریشان ہے
    اور بے بس ہے بڑے بڑے گڑھے ہیں مزید اس میں بارش کا پانی......
    اللہ پاک اس شہر پر رحم فرمائے اور شہر والوں پر.....

    جواب دیںحذف کریں
  9. ماشاء اللہ زبردست تحریر اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ہو

    اگر موجودہ ایم ایل اے سابق ایم ایل اے اور کارپوریشن واقعی میں عوام کی ہمدرد ہے تو ان تمام لوگوں کے لئے ذرا بھی مشکل نہیں ہے آگرہ روڈ کی تعمیر لیکن کیا ہے نا حرام کھاکھا کے ان لوگوں کی چمڑی اتنی موٹی ہو گئ ہے کہ انہیں عوام کی تکلیف زرا بھی نظر نہیں آتی

    جواب دیںحذف کریں
  10. کچھ دنوں پہلے سابق ایم ایل اے نے کارپوریشن سے مطالبہ کیا تھا کہ سخاوت ہوٹل سے دیوی کا ملہ تک روڈ کی تعمیر کی جائے اور اگر 8 دنوں میں کام نہیں شروع کیا گیا تو سٹی انجینئر کا منہ کالا کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔😅 اس کے ٹھیک دو روز بعد موجودہ ایم ایل اے کا بیان آتا ہے بس اسٹینڈ سے عبد المطلب پٹرول پم تک روڑ بنائی جاۓ۔۔۔۔۔ 🤦🤪۔۔۔۔ اس بات کو آٹھ دن گزر چکے ہیں نا ہی سٹی انجینئر کا منہ کالا ہونے خبر آئی اور نا ہی ایم ایل اے صاحب آگرہ روڈ کو لے کر سنجیدہ ہوۓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عوام کو صرف یہ سمجھا کہ سابق ایم اے جو بھی بیان دے گا موجود ایم ایل اے اس سے دو قدم آگے کا بیان دیں گے۔۔۔۔مطلب کام صرف سوشل میڈیا پر زوروں سے ہو رہا ہے لیکن زمین پر ندارد۔۔۔۔۔۔ آج سے ٹھیک ایک سال پہلے آگرہ روڈ کی پیوند کاری کا ناقص کام ہو رہا تھا جس پر شہری ایم ایل اے کی مداخلت والی ویڈیو خوب وائرل ہوئی تھی اور پھر کجھ گڑھوں کو بھرا گیا۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد سوشل میڈیا پر شہری ایم ایل اے کی ناقص کام پر مداخلت کرنے کے بعد پوری آگرہ روڈ تعمیر ہو گئی۔۔۔۔ ان کے حواریوں نے کچھ اس طرح کی ہی پوسٹس چلائیں تھی۔۔۔۔۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کام کوئ بھی نہیں کر رہا ہے صرف سوشل میڈیا پر پوسٹس چلا کر عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اب ایسا تو ہے نہیں کہ شہری ایم ایل اے صاحب کو پتہ نہیں ہو کا کہ ان کے حواری سوشل میڈیا پر عوام کو ان کا نام لے کر گمراہ کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ویسے اگر کارپوریشن چاہے تو آگرہ روڈ ایسی بن جائے کہ دیکھنے لائق ہو ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کارپوریشن میں براجمان لوگ تو برسوں سے عوام کو بے وقوف بنا ہی رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ بارش ہو یا نا ہو روز شہر کی کسی نا کسی گٹر کا پانی سڑکوں پر آ جاتا ہے ۔۔۔۔۔ شہر میں اتی کرمن کی بھر مار ہے ہر چار جھ مہینوں میں کارپوریشن خواب خرگوش سے صرف دو منٹ کے لئے بیدار ہو تی ہے اور بس۔۔۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. دوسرے نمبر پر مشرقی اقبال روڈ (قبرستان والی روڈ) ہے جو شہر کا قلب بھی مانا جاتا ہے.

      حذف کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم