سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان شرع متین مسئلہ ھذا کے بارے میں کہ زید کی بیوی ہندہ جس کے تین بچے بھی ہیں، لیکن ہندہ کا بکر سے پیار محبت کا معاملہ ہوگیا اور پیار محبت میں دونوں نے بھاگ کر نکاح کرلیا، زید اور لڑکی کے بھائیوں نے بہت تلاش کیا، ایک سال کے بعد زید کی بیوی کا علم ہوا تو اس کے دوسرے شوہر سے ایک بچہ بھی ہوچکا ہے، زید کی بیوی پہلے شوہر کے پاس رہنا نہیں چاہتی ہے اور زید اسے رکھنا چاہتا ہے، اور طلاق بھی دینا چاہتا ہے، لہٰذا اگر ضرورت پڑی تو شریعت کی روشنی میں کس طرح زید طلاق دے تاکہ اس پر آخرت میں پکڑ نا ہو، اور نان و نفقہ کا کیا حکم ہوگا؟ اور دوسرے آدمی سے جو بچہ ہوا اس کا کیا کرنا چاہئے؟
(المستفتی : محمد عبداللہ، ممبئی)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں زید کے نکاح میں رہتے ہوئے ہندہ کا بکر سے نکاح کرلینا ناجائز عمل تھا، ہندہ کا یہ دوسرا نکاح منعقد ہی نہیں ہوا ہے اور اس باطل نکاح سے جو تعلقات قائم ہوئے ہیں وہ سراسر زنا اور حرام ہیں۔ لہٰذا ہندہ پر لازم ہے کہ وہ فوراً بکر سے الگ ہوجائے اور سچے اور خالص دل سے توبہ کرکے اپنی اس حرکت پر نادم ہو، اگر وہ سچے دل سے توبہ استغفار کرلیتی ہے تو امید ہے کہ اس کا گناہ معاف ہوجائے گا، اور شوہر کو اس پر اطمینان ہوجائے کہ آئندہ وہ ایسی قبیح حرکت نہیں کرے گی، تو وہ اسے اپنے نکاح میں رکھنا چاہتا ہوتو رکھ سکتا ہے، شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے، اس لئے کہ ہندہ کے اس شرمناک فعل کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے، بلکہ نکاح بدستور باقی ہے۔ البتہ اگر زید کو اس کے ساتھ نباہ مشکل نظر آرہا ہو اور اس کے ساتھ رہنے میں شرعی حدود پر قائم نہ رہ سکتا ہو تو پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے کر اپنے نکاح سے خارج کرسکتا ہے، اس صورت میں زید شرعاً گناہ گار نہیں ہوگا۔ اس صورت میں عدت کی مدت یعنی تین ماہواری کے نان ونفقہ کا خرچ شوہر پر واجب ہوگا۔ البتہ اگر ہندہ از خود طلاق کا مطالبہ کررہی ہے تو خلع کا معاملہ کیا جاسکتا ہے، وہ اس طرح سے کہ زید عدت کے خرچ کے بدلے طلاق دے سکتا ہے۔ زید کے طلاق دینے کے بعد عدت گزر جائے تو پھر ہندہ بکر سے نکاح کرسکتی ہے۔
اب رہ گئی اس دوران پیدا شدہ بچے کے نسب کی بات تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر بکر کو ہندہ سے نکاح کرتے وقت یہ بات معلوم تھی کہ وہ زید کی منکوحہ ہے، تو اس بچی کا نسب بکر سے نہیں، بلکہ شوہر اول یعنی زید ہی سے ثابت ہوگا، اور اگر بکر کو زید کی منکوحہ ہونے کی خبر نہیں تھی، تو اس صورت میں یہ وطی بالشبہ کے درجہ میں ہوگی اور بچی کا نسب بکر سے ثابت ہوگا۔ لہٰذا جس سے بھی نسب ثابت ہوگا وہی اس بچے کا ذمہ دار ہوگا۔
قال اللہ تعالی : قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (سورہٴ زمر آیت: ۵۳)
وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ رواہ ابن ماجہ والبیہقی في شعب الإیمان کذا في مشکاة المصابیح (کتاب الدعوات باب الاستغفار والتوبة الفصل الثالث)
ولا یجب علی الزوج تطلیق الفاجرۃ و لاعلیہا تسریح الفاجر، إلا إذا خافا أن لا یقیما حدود اللہ فلا بأس أن یتفرقا۔ ( البحر الرائق : ۳/۱۸۸)
فالأحسن : أن یطلق الرجل امرأتہ تطلیقۃ واحدۃ في طہر لم یجامعہا فیہ، ویترکہا حتی تنقضي عدتہا۔ (ہدایۃ، کتاب الطلاق، باب طلاق السنۃ، ۲/۳۵۴)
ولو تزوج بمنکوحۃ الغیر وہو لا یعلم أنہا منکوحۃ الغیر فوطئہا تجب العدۃ، وإن کان یعلم أنہا منکوحۃ الغیر لا تجب حتی لا یحرم علی الزوج وطؤہا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۳۴۶)
الأصل في ہذا أن کل امرأۃ۔۔۔۔۔إلا إذا علم یقیناً أنہ منہ وہو أن یجيء لأقل من ستۃ أشہر، وکل امرأۃ وجبت علیہا العدۃ، فإن نسب ولدہا یثبت من الزوج الخ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۵۳۷)
أما نکاح منکوحۃ الغیر ومعتدتہ فالدخول فیہ لا یوجب العدۃ إن علم أنہا للغیر؛ لأنہ لم یقل أحد بجوازہ فلم ینعقد أصلاً۔ (شامي، ۴/۲۷۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ذی الحجہ 1441
الجواب صحیح
مفتی عزیز الرحمن فتحپوری
استغفراللہ
جواب دیںحذف کریںاللہ نہ کرے ایسے حالات کسی کہ ساتھ پیش آیے کتنے لوگوں کی زندگی خراب ہوگی اللہ تعالٰی سب جوڑو کی حفاظت فرمائے آمین
آمین
حذف کریں