سوال :
مفتی صاحب ! آج ایک مسجد میں نکاح تھا اور اسی مسجد کے پاس باراتیوں نے پٹاخہ پھوڑا تو مسجد والوں نے جرمانہ 500 روپے لیے تو کیا ان کا یہ جرمانہ لینا صحیح ہے؟
(المستفتی : حافظ رضوان الرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پٹاخے پھوڑنا ایک ایسا گناہ ہے جس میں ایذائے مسلم، فضول خرچی، اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے اور غیرقوموں سے مشابہت جیسے بڑے بڑے گناہ پائے جاتے ہیں، پھر مسجد کے پاس پھوڑنا تو اس گناہ کی سنگینی کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن چونکہ مالی جُرمانہ لینے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، اس لیے مسجد والوں کا ان سے جُرمانہ لینا جائز نہیں ہے۔ اور یہ پیسے مسجد میں استعمال کرنا یا کسی اور کا اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، بلکہ اس پیسے کا واپس کردینا ضروری ہے۔ اس میں مزید قباحت یہ بھی ہے کہ جُرمانہ لینے سے یہ بُرائی بجائے ختم ہونے کے بڑھ بھی سکتی ہے، کیونکہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ پانچ سو مسجد والوں کو دے کر پھر دھوم سے پٹاخے پھوڑے جائیں گے، لہٰذا جُرمانہ لینے کے بجائے انہیں پٹاخہ پھوڑنے کی قباحت اچھی طرح سمجھائی جائے، یا انہیں باز رکھنے کے لیے کوئی جائز طریقہ اختیار کیا جائے۔
وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ۔ (سورہ بقرہ، آیت : 195)
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا۔ (سورہ بنی اسرائیل، آیت : 27)
عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم۔ (سنن النسائي:۲؍۲۶۶، رقم الحدیث: ۴۹۹۵)
التعزیر بالمال جائز عند أبی یوسف، وعندہما وعند الأئمۃ الثلاثۃ لایجوز، وترکہ الجمہور للقرآن والسنۃ : وأما القرآن فقولہ تعالی :{فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم} ۔ وأما السنۃ فإنہ علیہ السلام قضی بالضمان بالمثل ولأنہ خبر یدفعہ الأصول فقد أجمع العلماء علی أن من استہلک شیئاً لم یغرم إلا مثلہ أو قیمتہ ۔ (اعلاالسنن ، ۱۱/۷۳۳، باب التعزیر بالمال ، بیروت)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ذی الحجہ 1441
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزا
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریں