بدھ، 8 جولائی، 2020

جامعہ نظامیہ کا فتوی اور اخبارات کا غیرذمہ دارانہ عمل



✍️ محمد عامر عثمانی ملی 
 (امام وخطيب مسجد کوہ نور) 

قارئین کرام ! مسلمانوں کے دوسرے بڑے تہوار عیدالاضحٰی کی آمد آمد ہے، چنانچہ لاک ڈاؤن اور حکومتی پابندیوں کے پیشِ نظر بعض بڑے اداروں کی طرف قربانی کے سلسلے میں ہدایات اور فتوے کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے۔ ان میں سے ایک فتوی حیدرآباد کے مشہور ادارے جامعہ نظامیہ سے بھی جاری ہوا۔ اس فتوے کو لے کر بعض اخبارات میں جو خبر بنائی گئی ہے وہ درج ذیل ہے :

شہر کے ایک شخص نے کوویڈ 19 کی وبائی بیماری کے پیش نظر اسلامی مدرسے کی رائے طلب کی تھی۔ مذہبی طور پر مسلمان عیدالضحی کے موقع پر بھیڑ، بکرے، بیل اور اونٹ کی قربانی دیتے ہیں۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ کویڈ 19 کی وجہ سے موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر مسلمان جانوروں کی قربانی دینے اور قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کے بجائے رشتہ داروں، غریب افراد یا مدرسوں میں اسلامی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو رقم دے سکتے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں رقم تقسیم کرنے کا عمل کسی جانور کی قربانی کے مترادف سمجھا جائے گا۔

جبکہ جامعہ نظامیہ کے فتوے کا مفہوم درج ذیل ہے جس کا عکس اوپر موجود ہے :

قربانی کے ایام یعنی دس ذی الحجہ کی صبح سے بارہ ذی الحجہ کی عصر تک حتی الامکان قربانی کرنے کی کوشش کی جائے گی، خواہ اپنے مقام یا کسی اور جگہ، اگر باوجود کوشش کے قربانی کا نظم نہ ہوسکے تب قربانی کے ایام گذر جانے کے بعد قربانی کی رقم صدقہ کی جائے گی۔ 

محترم قارئین ! اخبارات کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں قربانی کرنے کے بجائے اس کی رقم غریبوں میں تقسیم کردینا قربانی کے مترادف ہوگا۔ جس کی وجہ سے فتوے کا مفہوم بالکل برعکس ہوگیا ہے۔ اور نام نہاد مسلمانوں اور فرقہ پرستوں کو مسلمانوں کی اہم عبادت قربانی پر انگلی اٹھانے کا موقع ملا ہے، اور جیو ہتھیا کی جھوٹی ہمدردی میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا گیا ہے۔ ایسے حساس مسئلے پر بعض اخبارات کا یہ غیرذمہ دارانہ فعل سخت تشویش اور بے چینی کا سبب بنا ہے۔ اب اگر یہ غلطی قصداً کی گئی ہے تو یہ قانوناً اور شرعاً سنگین جرم اور گناہ ہے اور اگر قصداً نہیں ہے تب بھی یہ عمل شرعاً درست نہیں ہے۔ کیونکہ شریعت کا حکم یہی ہے کہ کسی خبر کی تحقیق کے بعد ہی اسے بیان کرنا چاہیے۔ ورنہ خبر غلط ہونے کی صورت میں ندامت وشرمندگی آپ کا مقدر ہوگی۔ لہٰذا ایسے اخبارات کو فوری طور پر اس فتوے کی وضاحت کرنا چاہیے اور قرآن کریم کی درج ذیل آیت کریمہ ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے :
اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو، اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔ (سورہ حجرات، آیت : ٦)

معلوم ہونا چاہیے کہ قربانی کے ایام میں قربانی سے زیادہ کوئی عمل اللہ تعالٰی کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے۔ لہٰذا جن لوگوں پر قربانی واجب ہے وہ اخیر وقت تک حتی الامکان قربانی کی کوشش کریں گے، کوشش کے باوجود قربانی کی صورت نہ بن سکے تب قربانی کی رقم صدقہ کی جائے گی۔حنفی مسلک سے منسلک تمام اداروں کا فتوی تقریباً یہی ہوگا، لہٰذا اس سلسلے میں تشویش میں مبتلا نہ ہوں، بلکہ خوش دلی سے تندرست جانور کی قربانی کرنے کے لیے تیار رہیں۔

نوٹ : سوشل میڈیا پر چونکہ اس مدعے کو لے کر بحث بھی جاری ہے، اور عوام کا ایک بڑا طبقہ اس فرق کو سمجھ نہیں پارہا ہے جس کی وجہ سے مناسب محسوس ہوا کہ اس کی وضاحت کردی جائے تاکہ انتشار اور الجھن کسی حد ختم ہو۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو حق اور سچ بات کہنے اور سننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


2 تبصرے:

بوگس ووٹ دینے کا حکم