سوال :
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ھذا کے بارے میں کہ زید اور اسکی بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا پھر بیوی اپنے بچوں کے ساتھ اپنے بڑے بیٹے کے گھر چلی گئے(جوالگ رہتا ہے) جب وہ لوگ واپس آئے تو زید نے کہا کہ میں نے تجھے چھوڑ دیا، کون ہے تو؟ کون لگتی ہے تو میری؟ کیا لینے آئی ہے یہاں؟ تیری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی؟ جانے سے پہلے سوچنا تھا اب نکل یہاں سے مجھے تیری ضرورت نہیں ہے، پھر بیوی نے کہا کہ کیا آپ نے ہمیں چھوڑ دیا؟ تو زید نے کہا کہ میں نے تم سب کو چھوڑ دیا اب تم لوگ آزاد ہو۔ تو مذکورہ جملے کہنے کی صورت میں طلاق ہوگی یا نہیں؟ آپ سے ادبا گزارش ہے کہ جواب عنایت فرما کر ممنون ومشکور ہوں۔
(المستفتی : محمد ابوذر، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : چھوڑ دیا، کا لفظ سَرَّحْتُ، کا ترجمہ ہے، اور سَرَّحْتُ کو فقہاء نے صریح الفاظ میں شمار کیا ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید کے ایسا کہنے سے کہ "میں نے تجھے چھوڑ دیا" زید کی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی، دوبارہ زید کی بیوی کے پوچھنے پر چونکہ اطلاعاً کہا گیا ہے، لہٰذا اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ البتہ اگر زید نے دوسری بار نئی طلاق کے لیے کہا ہو تو مزید ایک طلاق واقع ہوجائے گی۔ ایک طلاقِ رجعی کا حکم یہ ہے کہ اس سے پہلے دو طلاق نہ ہوئی ہوتو شوہر کو عدت کی مدت میں رجوع کا اختیار ہوتا ہے، یعنی دو گواہوں کی موجودگی میں کہہ دے کہ میں رجوع کرتا ہوں یا تنہائی میں میاں بیوی والا عمل کرلے تو رجوع ہوجائے گا۔ اس سے پہلے کوئی طلاق نہیں ہوئی ہوتو شوہر کے پاس دو طلاق حق باقی رہے گا۔
فإن سرحتك كناية، لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح، فإذا قال: " رهاكردم " أي سرحتك، يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضاً، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت۔ (شامی : ٣/٢٩٩)
ولو قال الرجل لامرأتہ تراچنک باز داشتم او بہشتم اویلہ کردم ترا۔ فھٰذا لحلۃ تفسیر قولہ طلقتک عرفًا حتٰی یکون رجعیًا ویکون بدون النیّۃ۔ (الفتاویٰ الھندیۃ : ١/٣٧٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 ذی القعدہ 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں