سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اگر چائے وغیرہ میں مکھی گر جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : رضوان تنبولی، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دم مسفوح یعنی بہنے والا ناپاک خون جن جانداروں میں نہ ہو اگر وہ پانی وغیرہ کسی مشروب میں گرجائیں تو وہ پانی اور مشروب ناپاک نہیں ہوتا۔ مکھی بھی انہیں جانداروں میں سے ہے جن میں دم مسفوح نہیں ہوتا، اگر وہ کسی مشروب دودھ، چائے وغیرہ میں گرجائے تو وہ مشروب ناپاک نہیں ہوگا، لہٰذا مکھی نکال کر پھینک دینے کے بعد اس کا استعمال بلاکراہت درست ہوگا۔
اس سلسلے میں حدیث شریف میں ایک اور ہدایت ملتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کسی شخص کے برتن میں ( کہ جس میں کھانے پینے کی کوئی چیز ہو) مکھی گر جائے تو اس کو غوطہ دو کیونکہ اس کے ایک بازو میں بیماری ہے اور دوسرے بازو میں شفاء اور مکھی (کسی چیز میں) پہلے اپنے اسی بازو کو ڈالتی ہے جس میں بیماری ہے، لہٰذا پوری مکھی کو غوطہ دینا چاہئے (تاکہ شفا والے بازو سے ان جراثیم کا دفعیہ ہو جائے جو بیمار والے بازو کی وجہ سے کھانے پینے کی چیز میں پہنچ گئے ہیں۔
معلوم ہوا کہ مکھی اگر چائے دودھ وغیرہ کسی مشروب میں گرجائے تو اسے پورے طور ڈُبا کر نکالنا چاہیے کہ اس کی وجہ سے اس کے مضر اثرات ختم ہوجاتے ہیں، جس کی تائید سائنسی تحقیقات سے بھی ہوتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ آپ علیہ السلام کا یہ حکم وجوبی نہیں ہے کہ جس کا ماننا ضروری ہو، بلکہ یہ بطور ترحم اور مشورہ کے ہے۔ لہٰذا اگر کسی کو اس سے طبعی طور پر کراہت ہوتی ہو تو اس کے استعمال نہ کرنے پر اسے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
البتہ اگر مشروب اس قدر گرم ہو یا مکھی اس میں اتنی دیر تک پڑی رہی اس کے اجزاء کا مشروب میں مل جانے کا غالب گمان ہوتو پھر ایسے مشروب کا پینا درست نہیں، کیونکہ یہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔
وموت مالیس له نفس سائلة في الماء لاینجسه کالبق والذباب والزنابیر والعقارب ونحوها۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۲۴/۱)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَامْقُلُوهُ ؛ فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ دَاءً وَفِي الْآخَرِ شِفَاءً، وَإِنَّهُ يَتَّقِي بِجَنَاحِهِ الَّذِي فِيهِ الدَّاءُ، فَلْيَغْمِسْهُ كُلَّهُ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : 3844)
وعلیٰ ھذا قلنا فی قولہ علیہ السلام اذا وقع الذباب فی طعام أحدکم فامقلوہ ثم انقلوہ فان فی احدی جناحیہ داء وفی الأخری دواء وإنہ لیقدم الداء علی الدواء دل سیاق الکلام علی أن المقل لدفع الأذی عنا، لاللأمر تعبدی حقا للشرع فلایکون للإیجاب۔ (أصول الشاشی : ۲۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 ذی القعدہ 1441
جزاکم اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںجزاكم اللّٰہ خيراً و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریں