سوال :
ہمزاد کی کیا حقیقت ہے؟ میں نے کہیں پڑھا تھا مگر یاد نہیں آ رہا کہ اگر قبر میں مٹی ڈالتے وقت یہ آیت منھا خلقنکم، وفیھا نعیدکم الخ، نہ پڑھے تو اس کا ھمزاد باہر رہ جاتا ہے۔ برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں اورعنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مولانا اشفاق، پونے)
---------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ ایک ہمزاد (شیطان میں سے اور ایک ہمزاد فرشتوں میں سے) مقرر نہ کیا گیا ہو، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ کے ساتھ بھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں میرے ساتھ بھی لیکن اللہ نے مجھ کو اس سے مقابلہ کرنے میں مدد دے رکھی ہے اس لئے میں اس (کے مکر و فریب اور اس کی گمراہی) سے محفوظ رہتا ہوں، بلکہ یہاں تک کہ) وہ بھی مجھے بھلائی کا مشورہ دیتا ہے۔
اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کے ساتھ مؤکل ہوتے ہیں ان میں سے ایک تو فرشتہ ہے جو نیکی و بھلائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور انسان کو اچھی باتیں و نیک کام سکھاتا ہے اور اس کے قلب میں خیر و بھلائی کی چیزیں ڈالا رہتا ہے، اس کو " ملہم" کہتے ہیں، دوسرا ایک جن (شیطان) ہوتا ہے، جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کو برائی کے راستہ پر ڈالتا رہے۔ چنانچہ وہ گناہ و معصیت کی باتیں بتاتا ہے اور دل میں برے خیالات و غلط وسوسے پیدا کرتا رہتا ہے اس کا نام "وسواس" ہے۔ اسی کو عوام الناس ”ہمزاد“ کہتے ہیں، جس پر مختلف کہانیاں اور خرافات گھڑے گئے ہیں، ورنہ اس کے علاوہ ہمزاد کی اور کوئی حقیقت یا ثبوت نہیں ہے۔
آپ نے جو سوال کیا ہے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب اعمال قرآنی میں ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ :
آیت منھا خلقنٰکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃً اخریٰ کی خاصیت مشائخ سے منقول ہے کہ اگر میت پر دفن کے وقت تین بار اس آیت کو پڑھ کر مٹی دیوے تو اس کا ہمزاد شیطان بھی اس کے ساتھ دفن ہوجاوے گا۔
جس پر کسی نے حضرت سے اس کی دلیل اور وضاحت طلب فرمائی تو حضرت نے اس کا جواب عنایت فرمایا جو درج ذیل ہے :
الجواب : یہ کوئی روایت حدیث کی نہیں بعض بزرگوں سے منقول تھا لکھ دیا واقع میں یہ عبارت محتاج توضیح ہے، ورنہ ایہام کا احتمال ہے۔ اجزاء توضیح کے یہ ہیں :
۱)کسی حجت سے اس کا ثبوت نہیں ہے۔
٢) ہمزاد سے مراد یہ نہیں کہ اس کے ساتھ اس کی ماں کے پیٹ سے پیدا ہو بلکہ انسان کے مقابلہ میں ایک شیطان بھی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے جو صرف تولّد میں اسکا مشارک ہے اسی بناء پر اس کو ہمزاد کہہ دیا، نہ محل میں مشارک ہے نہ زمان تولّد میں۔
٣) مرنے میں مشارکت کہیں منقول نہیں تو انسان کے مرنے کے بعد وہ اور کسی پر مسلّط ہو جاتا ہے تو اس خاصیت کا حاصل یہ ہے کہ اس کی برکت سے وہ مسجون ہوجاتا ہے جیسے برکات رمضان میں مروی ہے صفدت الشیاطین اور طریق ثبوت اس کا محض کشف ہے جس کی نہ تصدیق واجب ہے نہ تکذیب۔ اور چونکہ ثبوت اس کا اس ضعیف درجہ میں ہے، اس لئے میری رائے یہ ہے کہ اگر یہ توضیح ساتھ نہ ہوتو اس مضمون کا چھپنا مناسب نہیں کہ عوام کے لئے موہم غلطی کا ہے۔ ۱۵/محرم ۱۳۴۳ھ (تتمہ خامسہ ص ۳۱۷/ امداد الفتاویٰ جدید مطول : ١٠/٢٧٠)
حضرت حکیم الامت نور اللہ مرقدہ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمزاد کی پیدائش الگ ہوتی ہے، وہ انسان کی ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوتا، بلکہ وہ شیطان سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ البتہ مرنے کی وضاحت کسی حدیث شریف میں نہیں ہے کہ وہ بھی انسان کے ساتھ مرجاتا ہے، اس لیے حضرت نے لکھا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ کسی اور کے اوپر مسلط ہوجاتا ہو اس لیے میت کی تدفین کے وقت آیت کریمہ منھا خلقنکم الخ پڑھنے کی برکت سے میت کا ہمزاد شیطان بھی اس کے دفن ہوجاتا ہے، جیسے رمضان المبارک کی برکت سے شیاطین قید ہوجاتے ہیں۔ نیز حضرت نے آگے خود لکھا ہے کہ یہ استدلال ضعیف ہے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اعمال قرآنی والی مذکورہ عبارت شائع نہ کی جائے، کیونکہ اس سے عوام غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔
امید ہے کہ درج بالا تفصیلات سے آپ کو تشفی ہوگئی ہوگی۔
عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما منکم من أحد إلا وقد وکل بہ قرینہ من الجن وقرینہ من الملائکۃ، قالوا وإیاک یا رسول اللّٰہ قال: وإیاک ولکن اللّٰہ أعانني علیہ فأسلم فلا یأمرني إلا بخیر۔ (صحیح مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ / باب تسویس الشیطان وبعثہ مراماہ وفتنتہ رقم ۲۸۱۴)
عن أبي ہریرۃ رضي اﷲ عنہ أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: إذا جاء رمضان فتحت أبواب الجنۃ وغلقت أبواب النار وصفدت الشیاطین۔ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل شہر رمضان، النسخۃ الہندیۃ ۱/۳۴۶، بیت الأفکار رقم: ۱۰۷۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ذی القعدہ 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں