سوال :
مفتی صاحب ! جمعہ کے دن لوم چلانا کیسا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جمعہ عید ہے، لہٰذا اس دن کام کرنے سے برکت نہیں رہتی۔ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آیتِ کریمہ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ الخ کی رُو سے جن لوگوں پر جمعہ کی نماز فرض ہے ان کے لئے جمعہ کے دن جمعہ کی پہلی اذان سے لے کر نماز جمعہ سے فارغ ہونے تک مفتیٰ بہ قول کے مطابق خرید و فروخت کرنا، سونا، کسی دینی کام میں مشغول ہونا، حتیٰ کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنا، غرض وہ سارے کام اور مشاغل جو جمعہ کی طرف جانے کے اہتمام میں مخل ہوں سب کے سب مکروہ تحریمی اور ناجائز ہیں۔
جبکہ اس کے آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔
ترجمہ : پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ، اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی نصیب ہو۔
اس سے پہلے کی آیت میں اذانِ جمعہ کے بعد خرید وفروخت وغیرہ کے تمام دنیوی امور کو ممنوع کردیا گیا تھا، اس آیت میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ نماز جمعہ سے فارغ ہونے کے بعد تجارتی کاروبار اور اپنا اپنا رزق حاصل کرنے کا اہتمام سب کرسکتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن کے ممنوعہ وقت کے علاوہ اگر کوئی اپنا کاروبار جاری رکھے یا بند۔ اس میں شرعاً کوئی قباحت کی بات نہیں ہے، بلکہ کاروبار جاری رکھنے میں ایک طرح سے برکت کی بات سلف صالحین سے منقول ہے۔
حضرت عراک بن مالک رحمۃ اللہ علیہ جب نماز جمعہ سے فارغ ہو کر باہر آتے تو دروازہ مسجد پر کھڑے ہو کر یہ دعا کرتے تھے۔
اللھم انی اجبت دعوتک وصلیت فریضتک وانتشرت کما امرتنی فارزقنی من فضلک و انت خیر الراز قین۔ (رواہ ابن ابی حاتم، ابن کثیر)
ترجمہ : یا اللہ میں نے تیرے حکم کی اطاعت کی اور تیرا فرض ادا کیا اور جیسا کہ تو نے حکم دیا ہے نماز پڑھ کر میں باہر جاتا ہوں تو اپنے فضل سے مجھے رزق عطا فرما اور تو تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
اور جو لوگ صرف پاور لوم چلانے والوں پر اعتراض کرتے ہیں ان سے سوال یہ ہے کہ کام سے مراد کیا صرف پاور لوم ہی ہے؟ ہمارے شہر میں جمعہ کے دن پاور لوم اور اس کے متعلقات کے علاوہ بقیہ تمام کاروبار تقریباً جاری ہی رہتے ہیں، تو پھر ان کے متعلق کیوں نہیں کہا جاتا کہ ان میں بے برکتی ہوگی؟ لہٰذا صرف پاور لُوم چلانے والوں کو کہنا کہ جمعہ کے دن کام کرنا بے برکتی کی بات ہے یہ خلافِ شرع ہونے کے ساتھ ساتھ خلافِ عقل بھی ہے، جو لوگ ایسا کہتے ہیں انہیں ایسی بلادلیل اور غلط بات کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ، ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ° فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ، وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔ (سورۃ الجمعۃ : ۹،۱۰)
وإذا أذن المؤذنون الأذان الأول ترک الناس البیع والشراء وتوجہوا إلی الجمعۃ ۔ (ھدایہ، کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، ۱/۱۷۱)
ويجب السعي وترك البيع بالأذان الأول، … وقال الحسن بن زياد: المعتبر هو الأذان على المنارة، والأصح أن كل أذان يكون قبل الزوال فهو غير معتبر والمعتبر أول الأذان بعد الزوال سواء كان على المنبر أو على الزوراء، كذا في الكافي۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۱۴۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 ذی الحجہ 1441
MashaAllah
جواب دیںحذف کریںJazakallah ul Khairah
شکریہ جذاک اللہ۔
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریں