✍️ محمد عامرعثمانی ملی
(امام وخطيب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! ایک انسان کی بنیادی ضرورت خوراک اور لباس ہے، خوراک سے انسان کے پیٹ اور لباس سے جسم کی ضرورت تو پوری ہوسکتی ہے، لیکن ایک حقیقی اور سچے مسلمان کے پاس اس کے پیٹ اورجسم کے ان تقاضوں کے علاوہ بھی ایک اہم چیز دین و ایمان ہے۔ چنانچہ مسلمان بھوکا تو رہ سکتا ہے، لیکن وہ اپنی مذہبی خصوصیات سے دستبردار نہیں ہوسکتا، اگر وہ اس دین میں رہے گا تو اپنی ان تمام خصوصیات کے ساتھ رہے گا۔
محترم قارئین ! آج پوری دنیا میں مسلمانوں کو بحیثیت ایک ملت کے ختم کرنے کی منصوبہ بندی اور کوششیں ہورہی ہیں، آج ہمارے دشمن ہمارے ملی وجود اور مذہبی خصوصیات کو چُن چُن کر ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اگر آج اسلام اپنی تمام تر خصوصیات وامتیازات کے ساتھ ہندوستان میں نظر آرہا ہے تو یہ مدارسِ دینیہ کی دین ہے۔ شہر شہر، گلی گلی، چھوٹی بڑی، کچی پکی مساجد کا وجود، مختلف تحریکوں کی شکل میں مسلمانوں کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی اصلاح کا جو جال ہرسمت بچھا ہوا ہے، یا کسی بھی جگہ دین کا شعلہ یا اس کی معمولی سی روشنی یا چنگاری سلگتی ہوئی نظر آرہی ہے وہ انہیں مدارسِ اسلامیہ کا فیضان ہے، اگر ان مدارس کا وجود نہ ہوتا تو آج ہم موجود تو ہوتے، لیکن بحیثیت مسلم نہیں، بلکہ ہماری پہچان خدانخواستہ کچھ اور ہوتی۔
درج بالا تمہید کا مقصد یہ ہے ہم مدارس اسلامیہ کی اہمیت کو سمجھیں، اور بقدر استطاعت اس کی بقا و ترقی میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں۔ مسلمانوں کے خون پسینے سے کمائے پر چلنے والے یہ مدارسِ اسلامیہ جنہیں دین کا قلعہ کہا جاتا ہے، فی زمانہ ان پر سخت حالات آئے ہوئے ہیں، دشمنوں کی نظریں ان اسلامی قلعوں پر لگی ہوئی ہے، وہ انہیں کمزور کرکے ختم کردینا چاہتے ہیں، دشمنوں کے ان حربوں میں سے ایک حربہ یہ بھی ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کو مالی طور پر کمزور کیا جائے۔ جیسا کہ آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مدارس اسلامیہ کے مالی اخراجات مسلمانوں کے عطیات و زکوٰۃ سے پورے کئے جاتے ہیں، اسی طرح اکثر مدارس میں زکوٰۃ و عطیات کے علاوہ چرم قربانی کی رقومات بھی ان کے اخراجات کی تکمیل میں اہم درجہ رکھتی ہیں۔ لیکن حکومتِ وقت کے ظالمانہ قانون کے نفاذ (گائے کی نسل کے ذبیحہ پر پابندی) کے بعد سے بھینس کی کھالوں کی قیمت میں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے ان مدارس کا بجٹ حد درجہ متاثر ہوگیا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ممانعت سے پہلے چرم قربانی کی مد میں جو آمدنی ہوتی تھی ممانعت کے بعد اس میں 80/90 فیصد تک کمی واقع ہوگئی ہے، اس ستم پر بالائے ستم یہ ہوا کہ اس طویل لاک ڈاؤن نے تو چرم قربانی کا مارکیٹ بالکل ختم ہی کردیا ہے اور زکوٰۃ کی وصولی بھی سمٹ کر تقریباً نصف رہ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے تقریباً تمام مدارس کا مالی نظام درہم برہم ہوگیا ہے، بڑے بڑے مدارس کی مالی حالت تشویشناک ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں ہم سب پر لازم ہے کہ ہم ان مدارس اسلامیہ کی بقا اور مضبوطی کے لئے ہر ممکن کوشش کریں، چنانچہ اسی فکر کو لے کر ہمارے ذہن چند تجاویز ہیں جسے آپ حضرات کی بصارتوں اور بصیرتوں کے حوالے کیا جارہا ہے۔
عیدالاضحیٰ کے موقع پر شہر کے مسلمانوں میں تین طبقات ہوتے ہیں، چنانچہ ان تینوں طبقات سے الگ الگ انداز میں درخواست کی گئی ہے۔
*جانوروں کے تاجروں سے درخواست*
تجارت بلاشبہ روزی کمانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے، اگر اس میں جھوٹ اور دھوکہ دہی سے بچتے ہوئے سچائی اور ایمانداری اختیار کی جائے تو ایسے تاجروں کے لیے انبیاء کرام کے ساتھ رہنے کی بشارت سنائی گئی ہے۔ لہٰذا ہماری تاجروں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ بلاشبہ اپنی تجارت میں نفع کمائیں، لیکن جھوٹ، دھوکہ دہی سے مکمّل طور پر اجتناب کرتے ہوئے، اعتدال کے ساتھ نفع کمائیں۔ اندھا دھند نفع کمانا اور لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا شرعاً سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ کم پرافٹ زیادہ سیلنگ جیسے نفع بخش اصول کے مطابق کام کریں، ان شاء اللہ آپ کی تجارت بابرکت ثابت ہوگی۔ اسی کے ساتھ اگر آپ یہ نیت بھی کرلیں کہ ہم قربانی جیسی اہم عبادت کی ادائیگی میں قربانی کرنے والوں کی معاونت کررہے اور انہیں قربانی کے جانور مہیا کررہے تو آپ دنیاوی نفع کے ساتھ اُخروی اجر وثواب کے مستحق بھی ہوں گے جس کی بلاشبہ ہر مسلمان کو ضرورت ہے۔ اگر آپ نے یہ طریقہ اختیار کرلیا تو ایک بڑا طبقہ جو اجتماعی قربانی میں حصہ لے کر اپنی واجب قربانی ادا کرنے پر اکتفا کرتا ہے وہ بھی ہمت کرکے جانور خریدے گا جس کا سیدھا فائدہ آپ کو پہنچے گا۔ اور جب قربانی کرنے والوں کو جانور مناسب قیمت پر ملے گا تو ان کے لیے کچھ مال مدارس میں دینا آسان ہوگا۔
*قربانی کرنے والوں سے التماس*
قربانی کرنے والے افراد سے سب سے پہلی درخواست یہ ہے کہ جب آپ جانور خریدنے جائیں تو سودا سوچ سمجھ کر کریں، ایسا نہ ہو کہ آپ کے پاس بجٹ زیادہ ہے تو کچھ بھی خرید لیں، بلکہ مناسب داموں میں جانور خریدیں تاکہ مارکیٹ خراب نہ ہو، کیونکہ ہوتا ایسا ہے کہ جن کے پاس بجٹ زیادہ ہوتا وہ سنجیدگی کے ساتھ مول بھاؤ کئے بغیر زیادہ قیمت پر جانور خرید لیتے ہیں جس کی وجہ سے کم بجٹ رکھنے والوں کو بہت دقت ہوتی ہے۔ لہٰذا حدیث شریف لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ (ابن ماجہ) یعنی ایک مسلمان نہ تو نقصان پہنچاتا ہے اور نہ ہی اٹھاتا ہے) کو پیشِ نظر رکھیں اور غور کریں کہ کہیں آپ غفلت میں خود نقصان اٹھاکر دوسروں کو بھی نادانستہ طور پر نقصان تو نہیں پہنچا رہے ہیں؟ اس کے بعد ہماری آپ سے مخلصانہ درخواست ہے کہ اگر آپ بیس ہزار کا جانور خرید رہے ہیں تو کوشش اس بات کی کریں کہ ایک ہزار روپے الگ کرلیں، اور اسی تناسب سے یعنی چالیس ہزار پر دو ہزار روپے الگ کرکے اسلامی قلعوں کی حفاظت کے لیے عنایت فرمائیں۔ اگر پہلے سے اس کا ذہن بنالیا جائے تو ان شاءاللہ اس رقم کا دینا آپ پر گراں نہیں گزرے گا۔
*قربانی نہ کرنے والوں سے گزارش*
اگر آپ صاحب نصاب نہیں ہیں اور قربانی نہیں کرتے ہیں تب بھی آپ اپنے آپ کو بری الذمہ نہ سمجھیں بلکہ بقدر استطاعت کچھ نہ کچھ نقد رقومات (سو دو سو روپے) مدارس میں بطور عطیہ ارسال فرمائیں، تاکہ ہماری نسلوں کے دین و ایمان کی حفاظت کا سامان ہوسکے، اور آخرت کا اجرِعظیم تو ان شاءاللہ مل کر رہے گا۔
اللہ تعالٰی ہم کو سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے، باطل کی سازشوں کو نیست و نابود فرمائے۔ اور مدارسِ اسلامیہ کی ترقی کے فیصلے فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
جواب دیںحذف کریںآمین ثم آمین
ماشاء اللہ
جزاک اللہ خیرا مفتی صاحب 🌹🌷💐🌺🌸
توصیف اشتیاق
بہت اعلیٰ، ماشاءاللہ عمدہ انداز اور آسان طریقہ سے رہنمائی فرمائی، تجاویز بھی بہتر ہے ، اللّٰہ تبارک و تعالٰی سب کو عنل کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںAameen summa aameen
جواب دیںحذف کریںقربانی کے بعد اب عموما کوی تبصرہ ہو جس سے مدارس کا فایدی ہو سکے
جواب دیںحذف کریںآمین
جواب دیںحذف کریں