جمعہ، 3 جولائی، 2020

امام سے پہلے کوئی رکن ادا کرنے کا حکم


سوال :

امام سے پہلے رکن کی ادائیگی کرنے والے کی نماز کا کیا حکم ہے؟ اور حدیث شریف میں جو سزا سنائی گئی ہے با حوالہ واضح فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا
(المستفتی : عبدالمتین، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر مقتدی نے امام سے پہلے سجدہ یا رکوع کیا اور وہ سجدے یا رکوع میں امام کے ساتھ ایک لمحہ کے لیے بھی شریک نہ ہوا بلکہ اس نے امام کے سجدہ یا رکوع میں جانے سے پہلے ہی سر اٹھا لیا اور پھر دوبارہ (امام کے ساتھ یا امام کے بعد) سجدہ یا رکوع نہیں کیا تو مقتدی کی نماز فاسد ہوجائے گی۔

اور اگر امام کے ساتھ سجدہ یا رکوع میں شریک ہوگیا یا بعد میں دوبارہ سجدہ یا رکوع کرلیا تو اس کی نماز فاسد تو نہ ہوگی مگر مقتدی کا یہ فعل مکروہِ تحریمی اور سخت گناہ ہے۔ احادیث میں اس کی ممانعت اور سخت وعید وارد ہوئی ہے۔

مسلم شریف میں ہے :
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی جب آپ نماز پڑھ چکے تو اپنا چہرہ مبارک ہماری طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ لوگو ! میں تمہارا امام ہوں! لہٰذا تم رکوع کرنے، سجدہ کرنے کھڑے ہونے اور پھرنے (یعنی نماز سے فارغ ہونے) میں مجھ سے جلدی نہ کیا کرو۔

بخاری شریف میں ہے :
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ امام کو اس لیے مقرر کیا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتدا کی جائے۔ جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب تک وہ تکبیر نہ کہے تم بھی تکبیر نہ کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور تم اس وقت تک رکوع نہ کرو جب تک وہ رکوع نہ کرے۔

بخاری ومسلم کی روایت میں ہے :
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ آدمی جو امام سے پہلے (رکوع و سجود سے) سر اٹھاتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ جل شانہ اس کے سر کو بدل کر گدھے جیسا سر کر دے گا۔

اس حدیث شریف کی تشریح ملاحظہ فرمائیں :

آدمی نماز کے ارکان امام کے ساتھ ادا نہیں کرتا بلکہ امام سے پہلے ہی ادا کر لیتا ہے مثلاً رکوع و سجود سے امام کے سر اٹھانے سے پہلے اپنا سر اٹھالیتا ہے تو ایسے آدمی کے بارے میں مذکورہ بالا حدیث سخت ترین وعید ہے۔

گو علماء لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہے یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی ایسا کرے گا اللہ تعالیٰ اسے گدھے کی مانند کم فہم و عقل کر دے گا کیونکہ تمام جانوروں میں گدھا ہی سب سے زیادہ کم فہم ہوتا ہے لہٰذا یہ مسخ حقیقی نہیں ہوگا بلکہ مسخ معنوی ہوگا تاہم علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس حدیث کو اپنے حقیقی معنی پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس امت میں بھی مسخ ممکن ہے جیسا کہ "باب اشراط الساعۃ" میں مذکور ہے اور اس کی تائید میں ایک روایت ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں کہ ان یحول اللہ صورتہ حمار یعنی اللہ تعالیٰ اس سے نہیں ڈرتا کہ اس کی صورت کو گدھے جیسی صورت کر دے۔

خطابی فرماتے ہیں کہ اس امت میں بھی مسخ جائز ہے لہٰذا اس حدیث کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کرنا جائز ہے۔

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ مسخ خاص ہے اور امت کے لئے جو مسخ ممتنع ہے وہ مسخ عام ہے چنانچہ احادیث صحیحہ سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔

مسخ صورت کی ایک عبرت ناک مثال
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مذکورہ بالاقول کی تائید ایک عبرتناک واقعہ سے بھی ہوتی ہے جو ایک جلیل القدر محدث سے منقول ہے کہ وہ طلب علم اور حصولِ حدیث کی خاطر دمشق کے ایک عالم کے پاس پہنچے جو اپنے علم و فضل کی بناء پر بہت مشہور تھا انہوں نے اس عالم سے درس لینا شروع کیا مگر حصول علم کے دروان یہ واقعہ طالب علم کے لئے بڑا حیرتناک بنا رہا کہ استاد پوری مدت کبھی بھی ان کے سامنے نہیں آیا درس کے وقت استاد اور شاگرد کے درمیان ایک پردہ حائل رہتا تھا ان کو اس کی بڑی خواہش تھی کہ کم سے کم ایک مرتبہ اپنے استاد کے چہرے کی زیارت تو کریں۔ چنانچہ جب انہیں اس عالم کی خدمت میں رہتے ہوئے بہت کافی عرصہ گذر گیا تو اس نے یہ محسوس کر لیا کہ طالب علم حصول حدیث کے شوق اور تعلق شیخ کے بھر پور جذبات کا پوری طرح حامل ہے تو استاد نے ایک دن درمیان میں حائل پردہ کو اٹھایا ان کی حیرت اور تعجب کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ جو جلیل القدر عالم اور ان کا استاد جس کے علم وفضل کی شہرت چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے اپنے انسانی چہرے سے محروم ہے بلکہ اس کا منہ گدھے جیسا ہے استاد نے شاگرد کی حیرت اور تعجب کو دیکھتے ہوئے جو بات کہی اسے سنئے اور اس سے عبرت حاصل کیجئے۔ اس نے کہا اے میرے بیٹے ! نماز کے ارکان ادا کرنے کے سلسلہ میں امام پر پہل کرنے سے بچنا میں نے جب یہ حدیث سنی کہ "کیا جو شخص امام سے پہلے سر اٹھاتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے جیسا کر دے" تو مجھے بہت تعجب ہوا اور میں نے اسے بعید از امکان تصور کیا چنانچہ (یہ میری بد قسمتی کہ میں نے تجربہ کے طور پر) نماز کے ارکان ادا کرنے کے سلسلہ میں امام پر پہل کی جس کا نتیجہ میرے بیٹے اس وقت تمہارے سامنے ہے کہ میرا چہرہ واقعی گدھے کے چہرے جیسا ہوگیا۔

بہر حال ملا علی قاری رحمہ اللہ اس کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ "رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد دراصل شدید تہدید اور انتہائی وعید کے طور پر ہے یا یہ کہ ایسے آدمی کو برزخ اور دوزخ میں اس عذاب کے اندر مبتلا کیا جائے گا۔ (مشکوٰۃ مترجم) 


عَنْ أَنَسٍ قَالَ صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَلَمَّا قَضَی الصَّلَاةَ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي إِمَامُکُمْ فَلَا تَسْبِقُونِي بِالرُّکُوعِ وَلَا بِالسُّجُودِ وَلَا بِالْقِيَامِ وَلَا بِالِانْصِرَافِ الخ۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ / باب تحریم سبق الإمام ۱؍۱۸۰ رقم : ۴۲۶)

إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوا وَلَا تُکَبِّرُوْا حَتَّی يُکَبِّرَ، وَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوا وَلَا تَرْکَعُوا حَتَّی يَرْکَعَ۔ (صحيح البخاری، تقصير الصلاة، باب صلاة القاعد، رقم : ۱۱۱۴) 

أَمَا يَخْشَی أَحَدُکُمْ أَوْ لَا يَخْشَی أَحَدُکُمْ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ۔ (صحيح البخاری، الاذان، باب اثم من رفع راسه قبل الامام، رقم : ۶۹۱ وصحيح مسلم، الصلاة، باب تحريم سبق الامام، رقم : ۴۲۷) 

ومسابقۃ المؤتم برکن لم یشارکہ فیہ إمامہ۔ (درمختار : ۲/۳۹۲)

ویفسدہا مسابقۃ المقتدي برکن لم یشارکہ فیہ إمامہ، کما لو رکع ورفع رأسہ قبل الإمام، ولم یعدہ معہ أو بعدہ وسلم۔ (مراقي الفلاح : ۱۸۵) 

اعلم أنہ اتفق کلہم علی أن المبادرة من الامام مکروہ تحریماً۔ (فیض الباری، ٢/٢١٦، المجلس العلمی، ڈابھیل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 ذی القعدہ 1441

2 تبصرے:

  1. اللہ اکبر کبیرا
    اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے، آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. اللّٰہ رب العزت ہم سب کی حفاظت فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین

    جواب دیںحذف کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم