بدھ، 29 جولائی، 2020

اپنے باپ کے گھر چلی جا کہنے سے طلاق کا حکم

سوال :

مکرمی جناب مفتی صاحب! عرض تحریر یہ ہے کہ ایک شخص نے غصے میں اپنی بیوی سے یوں کہا قرآن کی قسم تو مجھے نہیں چلتی تو اپنے باپ کے گھر چلی جا۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر شخص مذکور کی نیت اس جملے سے طلاق کی ہو تو کیا حکم ہے؟نیز اگر طلاق کی نیت ہو اور متعدد مرتبہ یہ جملہ کہے تو کیا حکم ہے؟ اور اگر طلاق کی نیت نہ ہو تو کیا حکم ہے؟ از راہ کرم تینوں صورتوں میں حکم شرع سے نوازیں۔
(المستفتی : شیخ محمد عمران، جامنیر)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں کہے گئے یہ الفاظ "تو اپنے باپ کے گھر چلی جا" کنایہ کے ہیں، جن سے طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کی نیت ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا اگر ان الفاظ سے طلاق کی نیت تھی تو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔

متعدد مرتبہ کہنے سے بھی ایک ہی طلاق واقع ہوگی، کیونکہ بائن کے ساتھ مزید بائن ملحق نہیں ہوتی۔

ایک طلاق بائن کی صورت میں اس شخص کی بیوی اسکے نکاح سے نکل جائے گی، اب وہ کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے، اور چاہے تو نئے مہر کے ساتھ اس شخص سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔ اس صورت میں شرعی حلالہ کی ضرورت نہ ہوگی۔ بشرطیکہ اس سے پہلے دو طلاق نہ ہوئی ہو۔

اگر طلاق کی نیت سے یہ الفاظ نہیں کہے گئے ہیں تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

ولو قال : اذہبي فتزوجي، وقال لم أنو الطلاق لا یقع شيء؛ لأن معناہ أن أمکنک إلی قولہ ویؤید ما في الذخیرۃ اذہبي وتزوجي لایقع إلا بالنیۃ۔ (شامي : ۴/۵۵۱)

قولہ: لایلحق البائن البائن، المراد بالبائن الذی لایلحق ہو ما کان بلفظ الکتابۃ۔ (شامي : ۴/۵۴۲)

أو تزوج ثانیاً في العدۃ۔ وفي الشامیۃ : فیما لو طلقہا بائناً بعد الدخول، ثم تزوجہا في العدۃ وجب کمال المہر الثانی بدون الخلوۃ والدخول۔ (درمختار مع الشامي، باب المهر،۴/۲۳۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 ذی الحجہ 1441
الجواب صحیح
مفتی عزیز الرحمن فتح پوری

1 تبصرہ:

  1. Agar koi biwe ki gair majoodgi me kahe ke mai use chod doga to kya isse talak ho jaygi ya fi uske khyal me talak deta hu ye baat chal rahi hai to isurat me kya hoga

    جواب دیںحذف کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم