✍️محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطيب مسجد کوہ نور)
قارئین کرام ! موجودہ حالات میں ملک کے بہت سے علاقوں میں وبائی مرض کو لے کر حکومتی پابندیوں کے باعث قربانی کرنا مشکل بلکہ ناممکن بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں قربانی جیسا اہم شرعی حکم کیسے ادا کیا جائے؟ چنانچہ زیرِ نظر مضمون میں اسی مسئلہ کو آسان اور سہل انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
قربانی ہر صاحبِ نصاب عاقل، بالغ مرد وعورت پر واجب ہے۔ اور قربانی کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی ہے، لیکن یہ پرانا تولہ ہے جو تقریباً بارہ گرام کا ہوا کرتا تھا، موجودہ تولہ چونکہ دس گرام کا ہوتا ہے، لہٰذا اب قربانی کا نصاب باسٹھ تولہ چاندی ہوگا۔ جس کی قیمت فی الحال ہمارے شہر مالیگاؤں کے اعتبار سے کم و بیش *32000* بتیس ہزار (قریب قریب پورے ہندوستان میں نصاب کی قیمت یہی ہوگی) بنتی ہے۔ اتنی ملکیت رکھنے والا شخص صاحبِ نصاب اور شرعاً مالدار کہلاتا ہے۔ مطلب یہ کہ جس شخص کے پاس زندگی کی لازمی ضروریات مثلاً رہائشی مکان، کھانے پینے کے سامان، استعمالی برتن و کپڑے کے علاوہ کرایہ کے مکانات، زمین، مالِ تجارت، رکھے ہوئے کپڑے اور برتن، سونا، چاندی یا نقد رقم اتنی مقدار میں ہو کہ ان کی مالیت بتیس ہزار کو پہنچ جائے تو اس شخص پر قربانی کرنا واجب ہے۔ نیز اس 32000 کی مالیت پر سال کا گزرنا بھی ضروری نہیں، بلکہ قربانی کے روز بھی اتنا مال کہیں سے آجائے اور وہ مالک بن جائے تو اس پر قربانی واجب ہوگی۔ البتہ اگر اس پر قرض ہوتو قرض کی رقم کل مالیت سے نکالنے کے بعد ایسا شخص صاحبِ نصاب باقی رہے گا تب اس پر قربانی واجب ہوگی، ورنہ نہیں۔
گھر کے جتنے بالغ افراد اپنے طور پر 32000 کے مالک ہوں گے ان سب پر قربانی واجب ہوگی، خواہ مرد ہوں یا عورت، برسرروزگار ہوں یا نہ ہوں۔
بطورِ خاص ملحوظ رہے کہ قربانی کے لیے باقاعدہ بڑا جانور یا پھر بکری، بکرا خریدنا ضروری نہیں، بلکہ بڑے جانور میں سے ایک حصہ بھی لیا جاسکتا ہے، پھر کم استطاعت رکھنے والے افراد کے لیے مزید سہولت اور آسانی یہ بھی ہے کہ بیرون شہرمعتبر جگہوں پر اجتماعی قربانی میں حصہ لے لیں، جہاں کافی کم قیمت مثلاً ہزار، بارہ، پندرہ سو روپے میں اجتماعی قربانی کا معقول نظم ہوتا ہے۔
موجودہ حالات میں بھی ہر صاحبِ نصاب پر قربانی کرنا واجب ہے۔ لہٰذا حتی الامکان قربانی کے ایام کے اخیر وقت تک یعنی 12 ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک قربانی کرنے کی کوشش کی جائے گی، خواہ اپنے مقام پر یا کسی اور علاقے میں، انفرادی طور پر یا اجتماعی قربانی میں حصہ لے کر۔ کیونکہ قربانی کے ایام میں اللہ تعالیٰ کو قربانی سے زیادہ کوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے۔ البتہ تمام تر کوششوں کے باوجود اگر کسی کو قربانی کرنے یا کروانے کا موقع نہ مل سکے تو اب اس کی دو صورتیں ہیں۔
ایک تو یہ ہے کہ اگر اس نے جانور خرید لیا تھا اور قربانی نہیں کرسکا تو اب یہ زندہ جانور ہی کسی غریب کو صدقہ کرے گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اگر اس نے جانور نہیں خریدا تھا تو بعد میں اس پر ایک سالہ متوسط بکرے یا بکری کی قیمت کا غریبوں پر صدقہ کرنا واجب ہوگا۔
ذہن نشین رہے کہ قربانی کی قضا میں بڑے جانور کے ساتویں حصہ کی قیمت کا صدقہ کرنا کافی نہ ہوگا، بلکہ ایک سالہ بکرے یا بکری کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے۔ نیز قربانی کے ایام میں قربانی کی قیمت صدقہ کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوگی، بلکہ قربانی کے ایام گزرنے کے بعد ہی یہ قیمت صدقہ کی جائے گی۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے اوپر عائد ہونے والے فرائض و واجبات کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
◼️حوالہ جات
قال الکاساني: ومنہا الغني: لما روي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: ’’من وجد سعۃً فلیضح‘‘ شرط علیہ الصلاۃ والسلام السعۃ، وہي الغنی؛ ولأنا أوجبناہا بمطلق المال۔ ومن الجائز أن یستغرق الواجب جمیع مالہ فیؤدي إلی الحرج فلابد من اعتبار الغني، وہو أن یکون في ملکہ مائتا درہمٍ أو عشرون دینارًا أو شيء تبلغ قیمتہ ذٰلک سوی مسکنہ، وما یتأثث بہ وکسوتہ وخادمہ وفرسہ وسلاحہ وما لا یستغنی عنہ، وہو نصاب صدقۃ الفطر۔ (بدائع الصنائع، کتاب التضحیۃ، ۴/۱۹۶)
وأما شرائط الوجوب : منہا : الیسار، ہو ما یتعلق بہ وجوب صدقۃ الفطر دون ما یتعلق بہ وجوب الزکاۃ … والموسر في ظاہر الروایۃ، مَن لہ أتا درہم أو عشرون دینارًا، أو شيء یبلغ ذٰلک مسکنہ ومتاع مسکنہ ومرکوبہ وخادمہ في حاجتہ التي لا یستغنی عنہا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/۲۹۲)
ولو ترکت التضحیۃ ومضت أیام النحر تصدق بقیمتہا غنی شراہا أولا لتعلقہا بذمتہ بشرائہا أولا، والمراد بالقیمۃ قیمۃ شاۃ تجزئ فیہا (در مختار) وفی الشامیۃ تحت قولہ: فالمراد بالقیمۃالخ، قال القہستانی: أو قیمۃ شاۃ وسط۔ (در مختار مع الشامی، کتاب الأضحیۃ، ۹/۴۶۳- ۴۶۵)
🌷 *JazaakALLAH mufti sahab* 💐
جواب دیںحذف کریںمفتی صاحب، قربانی میں بڑے جانور میں حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی جانب سے حصہ نکالنا کیسا ہے۔ اسطرف راہنمائی کریں۔
جواب دیںحذف کریںدرست ہے۔ مرحومین خواہ انبیاء ہوں ان کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے۔
حذف کریںبہت بہت شکریہ مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںقدم قدم پر ہم نا اہلوں کی رہنمائی کرنے کے لیے شکریہ
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزا