سوال :
محترم مفتی صاحب! مسجدوں کی جگہ، شاپنگ سینٹر، گھر کے کرایہ کے تعلق سے چند سوالات ذہن میں ہیں، آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے علم کی روشنی میں، قرآن و حدیث کی رو سے ان پر تصفیہ فرما کر عوام الناس کے لئے تحریر فرما دیں۔
1) بعض مساجد کے شاپنگ سینٹرس، ٹرسٹیان مساجد کے لئے، انکے عزیز و اقرباء کے لئے ہی مختص ہوتے ہیں، یہ تو ایسا ہے کہ اسکول کے مینجمنٹ میں آپ کے رشتہ دار ہیں تو آپ کو نوکری ملنا ہی ہے، ایسا کرنا، مطلب مساجد کی پراپرٹی پر اپنا حق جتانا کیا انکے لئے جائز ہے؟
2) کچھ جگہوں پر مسجد کی جگہ، (گھر، شاپنگ سینٹر) خالی کرنے کے لئے پیسوں کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے، (جبکہ کچھ واقعات ایسے بھی ہیں کہ غیر مسلم بھی بغیر پیسے لئے مسجد کی جگہ خالی کر دیتے ہیں) اس طرح مسجد کی جگہ خالی کرنے کے لئے پیسے مانگنا جائز ہے؟ یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ انہیں بغیر ایڈوانس کے برسوں پہلے بسایا گیا ہو۔ اور اگر کچھ قلیل رقم دی گئی تھی تو اسکا آج سے موازنہ کرکے لاکھوں مانگتے ہیں، جبکہ کرایہ کا موازنہ آج کے حساب سے نہیں کرتے، مسجد کے سامنے ہی 4000 کرایہ چل رہا ہوتا ہے مگر خود 400 دینگے۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجد کا متولی مسجد کی املاک کا محافظ ہے، مالک نہیں۔ اس کی شرعاً یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حتی الامکان اپنی ذات سے مسجد کو فائدہ پہنچائے، اور مسجد کی ملکیت کی دوکان ومکان کی حفاظت کرے اور اسے مسجد کے لیے مفید سے مفید تر بنانے کی کوشش میں لگا رہے، چنانچہ اگر مسجد کی ملکیت کے مکان ودوکان کو کرایہ پر دینے کی نوبت آئے تو ایسے شخص کو ترجیح دی جائے جو زیادہ کرایہ دے، خواہ وہ مسجد کے ٹرسٹیان کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اگر یہ بات نہ ہوتو پھر دوسروں کو یکسر نظر انداز کرکے صرف رشتہ داروں کو کرایہ پر دینا درست نہیں ہے۔ نیز اس میں مزید ظلم یہ ہے کہ ان سے عام کرایہ سے کم لیا جائے۔ لہٰذا ایسے متولیان کو اپنی اس غلط روش سے باز آجانا چاہیے۔
2) مسجد کا شاپنگ سینٹر خالی کرنے کے لیے بطور ڈپازٹ جمع کی گئی رقم سے زیادہ مانگنا یا ڈپازٹ کی رقم جمع ہی نہیں کی گئی ہے اس کے باوجود رقم کا مطالبہ کرنا سراسر ناجائز اور حرام ہے۔ یہ رقم کرایہ دار کے لیے حلال نہیں ہے، اگر کسی نے خدانخواستہ ایسا ظلم کرلیا ہے تو اس پر ضروری ہے کہ مسجد کی رقم واپس کرے اور اس پر توبہ و استغفار کرے، ورنہ دارین کا نقصان اس کا مقدر ہوگا۔
نوٹ : ڈپازٹ کے لیے جو رقم جمع کی گئی تھی، دوکان خالی کرتے وقت اتنی ہی رقم واپس کی جائے گی، موجودہ حالات کے اعتبار سے اس کا موازنہ نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ رقم بطور قرض ہوتی ہے، لہٰذا جتنی بھی تاخیر سے ادا کی جائے گی اس کی مقدار وہی ہوگی جو جمع کرتے وقت تھی، اس سے زیادہ کا مطالبہ کرنا سود کہلائے گا جس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی لعنت اور پھٹکار ہوتی ہے۔
عن أنس بن مالک أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ۔ (سنن الدارقطني، کتاب البیوع، رقم: ۲۷۶۲)
لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي / باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶)
ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 ذی القعدہ 1441
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں