سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ایک پوسٹ واٹس اپ پر نظر سے گزری جس میں لکھا ہوا ہےکہ عورت کو مرد کی بہ نسبت نصف عقل ہوتی۔ جبکہ دیکھا جائے تو پڑھائی کے معاملے میں عورتیں مردوں سے عموماً آگے ہوتی ہیں، تو نصف عقل کا کیا مطلب ہوا؟ اور کیا ایسا کہنا درست ہے؟
(المستفتی : مشتاق احمد، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بخاری شریف کی روایت ہے جس کے راوی حضرت ابوسعید خدری ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ عید الفطر یا عید الاضحیٰ کی نماز کے لئے عیدگاہ تشریف لے گئے تو آپ کا گزر عورتوں کی ایک جماعت کے پاس سے ہوا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا : اے عورتوں کی جماعت ! تم صدقہ وخیرات کرو، کیونکہ میں نے تم عورتوں کی اکثریت کو دوزخ میں دیکھا ہے (یہ سن کر) عورتوں نے کہا : یا رسول اللہ! اس کا سبب؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ : تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور اپنے شوہروں کی نافرمانی وناشکری کرتی رہتی ہو، اور میں نے عقل ودین میں کمزور ہونے کے باوجود ہوشیار مرد کو بے وقوف بنا دینے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا (یہ سن کر) عورتوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہماری عقل اور ہمارے دین میں کمی کیسے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : کیا ایک عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے نصف نہیں؟ (یعنی کیا ایسا نہیں ہے کہ شریعت میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر سمجھی جاتی ہے) ان عورتوں نے کہا، جی ہاں ! ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : یہی ان کی عقل کی کمزوری کی دلیل ہے۔ (آپ نے فرمایا) کیا ایسا نہیں ہے کہ عورت جب حیض کی حالت میں ہوتی ہے نہ تو نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے؟ ان عورتوں نے کہا : جی ہاں! ایسا ہی ہے، آپ نے فرمایا : یہ ان کے دین میں ناقص ہونے کی دلیل ہے۔
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ عورتیں مردوں کی بہ نسبت کم عقل ہوتی ہیں، جس کا حقیقی مطلب فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے اپنے ایک جواب میں تحریر فرمایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
’’ تعلیم ‘‘ معلومات کو جمع کرنے کا نام ہے، اور ’’عقل ‘‘ قوتِ فکر سے عبارت ہے، ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کتابوں میں موجود مضامین کو حاصل کرلے، لیکن اس میں فکر و نظر کی صلاحیت کم ہو، اس لئے فی زمانہ لڑکیوں کا تعلیم میں آگے بڑھنا عقل و فہم کے اعتبار سے بھی عورتوں کے فائق ہونے کی دلیل نہیں۔ ویسے میرا خیال ہے کہ حدیث میں نقصان عقل سے قوت فیصلہ میں کمی مراد ہے، گویا مقصد یہ ہے کہ عورتیں زیادہ زود رنج اور جذباتی ہونے کی وجہ سے کم قوت فیصلہ کی مالک ہوتی ہیں، اور اگر آپ حقیقت پسندی کے ساتھ خواتین کے مزاج پر غور کریں تو ضرور اس کی تصدیق کریں گے۔
نیز خواتین کو ناقص العقل کہنے سے آپ علیہ السلام کی منشاء عورتوں کی توہین نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار اور ان کے لئے رحم کی اپیل کرنا ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ کسی کم عمر لڑکے سے غلطی ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ معاف کردو، یہ بچہ ہے، اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مردوں کو متوجہ کیا ہے کہ اگر کبھی عورتیں زود رنجی کا مظاہرہ کریں یا مغلوب الجذبات ہوکر تمہارے ساتھ کوئی زیادتی کر جائیں تو ان کے ساتھ در گزر کا معاملہ کرو اور سمجھو کہ وہ ناسمجھ ہیں، ان سے انتقام کے درپئے نہ ہو۔
عن ابی سعید الخدری قال : خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی اضحیٰ او فطر الی المصلی، فمرعلی النساء، فقال : یا معشر النساء! تصدقن، فانی اریتکن اکثر اہل النار، فقلن وبم؟ یا رسول اللہ! قال تکثرن اللعن‘وتکفرن العشیر ما رأیت من ناقصات عقل و دین اذہب للب الرجل الحاذم من احدکن، قلن وما نقصان دیننا وعقلنا یا رسول اللہ؟ قال الیس شہادة المرأة مثل نصف شہادة الرجل قلن بلیٰ! قال فذالک من نقصان عقلہا۔ الیس اذا حاضت لم تصل ولم تصم، قلن: بلیٰ، قال:فذلک من نقصان دینہا۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر 304)
مستفاد : کتاب الفتاویٰ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 ذی القعدہ 1441
بہت عمدہ۔۔۔!۔۔۔
جواب دیںحذف کریںجَــــــــزَاک الــلّٰــهُ خَـــــيْراً
حذف کریںماشاءاللہ بہت خوب
حذف کریںMasha allah allah apke ilm amal me barkat ata farmae.
جواب دیںحذف کریںعمدہ تحریر
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ جزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںجزاک اللّہ احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںتشفی بخش جواب